عوامی ورکرز پارٹی کی کسان و کاشتکار کانفرنس ، مردان 12 اپریل 2015 ۔ قرارداد و پريس ريليز

عوامی ورکرز پارٹی کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان کسان و کاشتکار کانفرنس ریلوے سٹیشن گراؤنڈ مردان میں منعقد ہو ئی۔ اس کانفرنس میں ہزاروں کسانوں، کاشتکاروں اور کھیت مزدوروں اور پارٹی کارکنان نے شرکت کی۔ اس موقع پر صوبہ خیبرپختونخواہ کے مختلف اضلاع سے کسان و کاشتکارجلوسوں اور ریلیوں کی صورت میں شریک ہوئے۔ کانفرنس کی صدارت فانوس گوجر، چیئرمین عوامی ورکرز پارٹی نے کی۔کانفرنس کے مہمانِ خصوصی عابد حسن منٹو ، صدر ، عوامی ورکرز پارٹی تھے۔ ، کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں فانوس گوجر، عابد حسن منٹو، فاروق طارق، اختر حسین، ڈاکٹر فرزانہ باری، ڈاکٹر عاصم سجاد اختر، شہاب خٹک، یوسف مستی خان، مہر عبدالستار، طاہر شاہ گردیزی، سالار امجد علی، مولانا امیر محمد خان اور حاجی محمد امین کے علاوہ دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں مقررین نے پاکستان سے جاگیرداری نظام کے خاتمے تک جدوجہد کا اعلان کیا اور پاکستان بھر میں کسانوں کی حق ملکیت اوردیگر مطالبات کے حصول کیلئے ایک ملک گیر بڑی کسان تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا۔ اس کانفرنس میں ملک کی سیاسی صورتحال، زرعی شعبہ ، پانی کی تقسیم، کسانوں و ہاریوں اور مزارعوں کے مسائل پر قرار دادیں منظور کیں گئیں:

کسان و کاشتکار قرارداد
یہ کسان و کاشتکار کانفرنس شدت سے محسوس کرتی ہے کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت کا بڑا حصہ جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ ظلم و جبر کا شکار ہے۔ آج بھی پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں زمینیں گنتی کے چند جاگیرداروں اور سول و ملٹری بیوروکریسی کے قبضے میں ہے۔ سامراجی زرعی کمپنیاں، ریاستی ادارے اور جاگیردار مل کر کسانوں، کاشتکاروں اور کھیت مزدوروں کی محنت کا شدید استحصال کر رہے ہیں۔ جبری مشقت کی مختلف شکلیں آج بھی موجود ہیں۔ کسان عورتوں کا اغواء، قتل، عصمت دری، جبری شادی، گھریلو تشدد، رسم و رواج کے نام پر عورتوں کے لین دین جیسے انسان دشمن عمل کی روک تھام میں ریاست ناکام رہی ہے۔ اور نہ ہی جاگیرداری نظام کے ہوتے ہوئے عورتوں کو مساوی مالکانہ نہیں مل سکتے ہیں۔ أئین اور قانون کے ہوتے ہوئے جاگیردار پنچائتوں اور جرگوں کے زریعے ایک متوازی عدالتی نظام چلا رہے ہیں، جس نے کسانوں، کاشتکاروں اور پسے ہوئے طبقوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ نام نہاد ترقیاتی منصوبے بھی مقامی جاگیرداروں کی ملکیت اور سماجی اختیارات کو مزید تقویت دیتے ہیں ۔ آج بھی پاکستان کا دیہی سماج بنیادی معاشی و سماجی حقوق سے محروم ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے زرعی خریدوفروخت پر ملٹی نیشنل کمپنیوں، مقامی مل مالکان اور تاجروں کا اجارہ دارانہ کنٹرول بڑھتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے ضرورت کے وقت زرعی کھاد، ادویات، مشینری اور بیج وغیرہ کی قیمتیں فوراً بڑھ جاتی ہیں۔ساتھ ہی بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں کے بڑھنے سے پیداواری اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ جب پیداوار تیار ہو جاتی ہے تو اُس کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں۔ جس سے پیداواری اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے۔ کسان بتدریج قرض کی غلامی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے کسانوں میں ذہنی امراض کے ساتھ ساتھ خود کشی جیسے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے صوبوں کے درمیان تضادات موجود ہیں۔ مقامی سطح پر نہروں کے آخری حصوں میں پانی نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے زمینیں بنجر پڑی ہیں۔ عوامی ورکرز پارٹی نے اپنے پرگرام کا اعلان کیا اور کانفرنس نے درج زیل قرارداد منظور کی :
1. جاگیرداری کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ ملٹری فارمز، فوجی و سول افسرشاہی کو دی گئی تمام اراضی ، اور جاگیرداروں کی زمینیں ضبط کی جائیں گی ۔اور 25 ایکڑ نہری اور 50 ایکڑ بارانی حد ملکیت مقرر کر کے، تمام زمین مزارعین و بے زمین کسان مرد اور عورتوں میں تقسیم کی جائے گی۔
2. ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ، پٹہ پر حوالگی اور فروخت ختم کی جائے گی۔ زرعی اوزار اور مشینری کو ترقی دیکر قیمتوں میں خا طر خواہ کمی کی جائے گی۔ زرعی ادویات، مصنوعی کھاد اور بیج کے کارخانوں اور اداروں کو ریگلولیٹ کر کے قیمتوں میں خا طر خواہ کمی کی جائے گی ۔
3. کھیت مزدور کو صنعتی مزدور کے مساوی حقوق و مراعات کی ضمانت دی جائے گی۔
4. پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا اور بارانی علاقوں میںآبی وسائل کو ترقی دی جائے گی۔

یہ کانفرنس حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ:
1. مزارعین کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کی جائیں اور گرفتار مزارعین راہنماؤں کو فوری رہا کیا جائے۔
2. کسانوں کی بیدخلیاں فوری بند کی جائیں۔خواتین کسانوں پر جبر اور نابرابر اجرت کا خاتمہ کیا جائے۔ جبری مشقت کی ہر شکل کا خاتمہ کیا جائے۔ کھیت مزدوروں کو صنعتی مزدوروں کے برابر اجرت، سوشل سکیورٹی اور بڑھاپہ الاؤنس کے لئے قانون سازی کی جائے۔
3. پختونخوا مزارعین ایکٹ میں کسان مخالف ترامیم واپس لی جائیں۔ کسان مخالف “رواج سوات “کو ختم کر کے سب کو مالکانہ حقوق دئے جائیں۔ ملٹی نیشنل سیڈ کمپنیوں کی ایماء پر بنایا گیا صوبائی خودمختاری مخالف اور کسان مخالف پاکستان سیڈ ایکٹ 2014 فوری واپس لیا جائے۔
4. پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے ۔ جہاں زیر زمین پانی کھارا ہے وہاں میٹھے پانی کی فراہمی یقینی کی جائے اور جہاں زیر زمین میٹھا پانی ہے وہاں ٹیوب ویل کیلئے بجلی مفت فراہم کی جائے۔نہروں کے ٹیل اینڈ تک پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔کالا باغ ڈیم سمیت بڑے ڈیم بنانے کے منصوبے ترک کر کے تمام صوبوں میں چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔
5. کسانوں کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز میں اضافہ کیا جائے۔ زرعی پیداواری اخراجات کو کم کرنے کیلئے کھاد، مشینری، ادویات اور ٹیوب ویل کیلئے بجلی اور بیج پر حکومتی سبسڈی دی جائے۔ مارکیٹ کمیٹیوں کو بااختیار بنا کر ان میں کسانوں اور کاشتکاروں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔
6. خیبر پختونخواہ میں تمباکو کو فصل تسلیم کیا جائے اور تمباکو کے کاشتکاروں اور گنے کے کاشتکاروں کی پیداوار کو مناسب نرخ مقرر کئے جائیں ۔ سگریٹ کے کارخانے دوسرے صوبوں کے بجائے پختونخوا میں بنائے جائیں۔
7. زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ کالونیاں بنانا بند کی جائیں۔ کسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے دیہاتوں میں ٹاؤن کی طرز پر پلاننگ کی جائے گی اور تمام شہری سہولیات کی دستیابی کویقینی بنایا جائے۔ دیہی علاقوں میں تعلیم اور صحت کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور خاص طور پر تولیدی صحت کے حوالے سے طبی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
8. ملک میں زرعی پیداواری کو منظم منصوبہ بندی کے دائرہ کار کے اختیار میں لایا جائے تاکہ آبادی کی زرعی ضروریات کو مؤثر طور پر پورا کیا جاسکے۔ مضر صحت زرعی ادویات پر پابندی عائد کی جائے اور -جناس کے ریٹ مقرر کئے جائیں۔
9. مل مالکان کسانوں اور کاشتکاروں کو فصل کی پوری قیمت ادا کریں اور شوگر ملیں کاشتکاروں کے واجبات فوری ادا کریں۔

سیاسی قرار داد:
عوامی ورکرز پارٹی کی طرف سے منعقدہ یہ کاشت کار اور کسان کانفرنس ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ایک طرف پورے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری عروج پر ہے۔ کروڑوں عوام تعلیم، صحت و علاج معالجے سے محروم ہیں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں و فوجی و سول نوکر شاہی کی لوٹ مار اور کرپشن عروج پر ہے۔ جن کے ذمہ دار حکومت کے اندر اور باہر حکمران طبقات ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکومت بھی بین الاقوامی سامراج اور اُس کے اداروں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اور کثیر الاقوامی سرمایہ دار کمپنیوں کی شرائط کے تحت نجکاری کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایک طرف ملک میں عوام اپنے سماجی حقوق سے محروم ہیں اور دوسری طرف لاکھوں مزدور بیروزگاری ہورہے ہیں۔ ملک کے بڑے حصے میں جاگیرداری نظام اپنی مکروہ شکل میں قائم ہے اور بنیادی زرعی اصلاحات نا کرنے کی وجہ سے 60 فیصد آبادی پسماندگی، غربت اور افلاس کا شکار ہے۔
دوسری طرف ملک میں مذہبی انہتاء پسندی و دہشت گردی نے جمہوری اداروں کو کمزور کر دیا ہے۔ دہشت اور خوف کی فضاء ہر طرف قائم کر دی ہے۔ اس مذہبی انتہاء پسندی کی وجہ سے ناصرف مذہبی اقلیتیں غیر محفوظ ہیں بلکہ مسلمانوں کے اندر فرقہ پرستی میں عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ معاشی و سماجی ترقی رُکی ہوئی ہے۔ اس مذہبی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو خود ہماری اسٹبلشمنٹ اور حکمران طبقات نے پروان چڑھایا ہے،’’ ضرب عضب‘‘ شروع کرتے وقت اعلان کیا گیا تھا کہ اچھے اور برے طالبان کی تفریق کے بغیر تمام مذہبی انتہاء پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔ لیکن ابھی بھی تنظیمی پابندیوں کے باوجود کئی ایسی مذہبی تنظیمیں اور اُن کے راہنما کھلے عام کام کرتے ہیں۔ لاکھوں رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ مدارس جن میں فرقہ پرستی و انتہاء پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے کہ خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ ضرب عضب صرف قبائلی علاقوں تک محدود ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے
نقطہ نظر میں محض فوجی کارروائی سے بھی مذہبی انتہاء پسندی و دہشت گردی ختم نہیں ہو گی جب تک ملک میں تعلیمی نظام اور دیگر سماجی شعبوں میں بنیادی عوام دوست انقلابی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کی رائے میں تمام ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر پاکستان، افغانستان اور مشرقی وسطیٰ کے مسلم ممالک میں معاشی پسماندگی، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار امریکہ اور دیگر سامراجی ممالک اور اُن کے پٹھو سعودی شہنشاہیت اور دیگر عرب شیوخ ریاستیں ہیں۔ ہمارے حکمران طبقات اور پارلیمنٹ کو کھلے طور پر یمن کے اندر بیرونی فوجی مداخلت اور بمباری کی مذمت کرنی چاہیے تھی ہمارے نزدیک اس وقت نہ تو سعودی ریاست اور نہ ہی مقدس مقامات کو کوئی خطرہ ہے اس لیے جو پاکستانی محدود افواج سعودی عرب میں موجود ہیں یہ کانفرنس انہیں واپس بلانے اور پاکستانی حکومت کو مکمل طور پر غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
کاشغرگوادر ٹریڈ کاریڈور روٹ میں تبدیلی کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ اس روٹ کو اپنے پرانے فطری راستوں پر بنایا جائے جو کہ ملک کے پسماندہ علاقوں خیبرپختونخواہ، سرائیکی وسیب اور بلوچستان سے گزرتا ہے۔ یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ روٹ میں تبدیلی ختم کی جائے۔

برائے رابطہ
بختیار آغا جنرل سیکرٹری عوامی ورکرز پارٹی خیبرپختونخواہ
0300-5882623 0311-6882623

#LandReformsNow k

k3

k4

k5#AWPKissanConference