دہشتگردی اورمذہبی تضاد| پارٹی موئقف

تمام پارٹی مبمران سے، خاص طور پر اُن ساتهیوں سے جن تک منظور شده منشور کی تازه چهپی هوئ کاپی ابهی نہیں پہنچی هے، سے گذاش هے کہ مذهبی دهشت گردی اور مذهبی تضاد سے متعلق اپنا  موقف دیتے هوئے اپنے پارٹی منشور کی پاسداری کریں .

 

 عوامی ورکرز پارٹی کی پہلی کانگریس منعقدہ27-28 ستمبر 2014اسلام آباد سے منظور شدہ منشور سے اقتباس

 

 “(3) مذهبی تضاد

 

3.1۔ سامراج اور اس کے پروردہ حکمران طبقات نے ہمیشہ مذہب کو سماجی تبدیلی کی قوتوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ آج پاکستان سمیت ساری مسلم دنیا میں ترقی پسند اور بنیاد پرست عناصر کے مابین شدیدفکری اورسیاسی کشمکش جاری ہے۔ ترقی پسند عناصر ریاست اور مذہب کو جدا رکھنا چاہتے ہیں جبکہ بنیادپرستوں کا فتوی ہے کہ ریاست کو مذہب کے تابع ہوناچاہیے۔ پاکستان کی ابتدائی اسٹیبلشمنٹ نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی شکل میں ریاست کو مذہب کے تابع کرنے کا رستہ فراہم کیا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پاک فوج اور اس کی پیروی میں باقی ماندہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان کو مذہبی بنیاد پرست ریاست میں تبدیل کرنا شروع کردیا۔ 1978ء کے افغان انقلاب کے بعد امریکہ ، سعودی عرب اور پاکستانی حکمرانوں نے مل کر مذہبی بنیاد پرستوں کی نہ صرف بڑے پیمانے پر مالی اور عسکری امدادکی بلکہ اسلامی جہاد کے نام پر پورے معاشرے پرنصاب ، میڈیا اوردینی مدارس کے ذریعے ایک متعصب، متشدد ، عوام دشمن اور مقامی ثقافتوں کی نفی کرنے و الا ’’سیاسی اسلام‘‘ لاگو کر دیا۔ ریاستی اداروں کی پروردہ’’جہادی‘‘ قوتوں نے نہ صرف ہمسایہ ممالک میں انتشار پھیلایا بلکہ ملک کے اندر فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائے۔ ساتھ ہی ریاستی اداروں میں رجعتی سوچ رکھنے والے افراد کو بڑے پیمانے پر بھرتی کیا گیا لہٰذا آج پاکستان کی ایک پوری نسل کے فکری اور سماجی رویے ’’سیاسی اسلام‘‘ کے متعین کردہ ہیں۔

 

3.2۔ اس پس منظر میں ہمارے خطے پر سامراجی غلبہ اور حملہ، دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اور فوجی آپریشنز اور بربریت عوام کی زندگی کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ بلوچستان، کراچی، پختونخواہ اور فاٹامیں فوجی آپریشنز اور ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات نے عوام اور خاص طور پر عورتوں اور بچیوں کا گھروں سے نکلنا محال کر دیا ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کا ملناروز کا معمول ہے ۔ سکول اور ہسپتال بند ہو گئے ہیں ۔ جبری نقل مکانی کرنے سے عوام کے حالات مزید مخدوش ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِسوقت صرف فاٹا سے جبری نقل مکانی کرکے کیمپوں میں رہنے والوں کی تعداد40 لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔ اِس جنگ و جدل، فوج گردی اور اسلحے کی بھرمار نے ایک طرف پدرشاہی، طبقاتی جبر او رملکی معاشی کمزوری کو عمومی طور پر مزید تقویت دی ہے تو دوسری طرف بنیاد پرستی اور دہشت گردی نے عوام کی آزادی کے حقیقی سوالات کو ملکی سیاست سے غائب کر دیا ہے۔

 

3.3۔ مذہبی بنیاد پرستی کا وائرس ہمارے معاشرے میں بری طرح سرائیت کر چکا ہے۔مذہبی اشتعال انگیزی اور فرقہ وارنہ بربریت روز کا معمول ہے، مذہبی اقلیتیں ملک چھوڑ کر بھاگ رہی ہیں۔، معاشرے میں نہ اختلاف کی گنجائش بچی ہے نہ رواداری کا مادہ۔ ہماری ریاست مصلحت اور خوف کے مارے اپنے ہی پیدا کردہ اس عفریت کے آگے بے بس ہے۔ جبکہ سامراجی قوتوں نے کبھی مذہبی بنیاد پرستوں کی حمایت کی ہے تو کبھی ان کے خلاف ایسی کارروائیاں کی ہیں جن کے باعث ان سے نمٹنا اور زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ روشن خیال عوام کا وسیع تر حلقہ منظم جدو جہد کے ذریعے اس مذہبی بنیاد پرستی کا سدباب کرے ا ورسیکولرریاست، سیاست اور معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرے۔

 

 3.4۔ گزشتہ 12 سالوں کے دوران مذہبی عسکریت پسندوں کے ساتھ ان گنت مذاکرات، امن معاہدے اور فوجی آپریشنز کی ناکامی نے ثابت کیا ہے کہ ریاست کے نظریات،ریاستی ڈھانچے، قومی سلامتی پالیسی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کئے بغیر یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ مذاکرات، امن معاہدوں اور فوجی آپریشنز کی سیاست پاکستان کی قومی سلامتی پر مبنی ریاست )نیشنل سیکورٹی سٹیٹ) کا خاصہ ہے جوکہ فطرتاً عوام سے ’’رازداری‘‘ اور ’’جھوٹ‘‘ اور عوام کی موت یا جبری نقل مکانی پر مبنی ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اس سے مذہبی جنونیت،تشدد و بربریت، اور مذہبی فرقہ واریت بڑھی ہے۔ یہ حقیقت اب کھل کرسامنے آچکی ہے کہ ’’قومی سلامتی‘‘ پر مبنی ریاست نہ تو ملک میں امن کا قیام کر سکتی ہے اور نہ ہی ریاست کی رٹ قائم کر سکتی ہے۔ لہٰذا ریاست کے نظریات، ڈھانچے ، قومی سلامتی پالیسی، اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی ناگزیر ہے ۔ مذہب اور ریاست کو الگ کرنا، عدم مدا خلت اور پڑوسی ممالک سے پرامن تعلقات اور خود مختاری پر مبنی خارجہ پالیسی ، فوجی اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو کے گٹھ جوڑ کو توڑنا، ریاست کا بلاامتیاز تمام مذہبی دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کے لئے اقدامات، مذہبی عسکریت پسندوں کی معاونت اورانکی پشت پناہی سے ہاتھ روکنا، جیسے اقدامات کئے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ “

 

آپکا ساتهی

فاورق طارق

جنرل سیکریٹری