عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر یوسف مستی خان کو جمعرات کے روز پارٹی کے سرخ و سفید رنگوں کے جھنڈے میں لپیٹ کر کراچی میں ان کے آبائی قبرستان میوہ شاہ لیاری میں سینکٹوں لوگوں کی موجودگی اور آنسوں اور سسکیوں کے درمیان سپرد خاک کیا گیا۔ وہ 29 ستمبر 2022 کو کینسر کے خلاف جنگ ہار گئے۔ ان کی عمر 74 برس تھی۔ انہوں نے پسماندگان میں تین بیٹوں، دو بیٹیوں، اور بے شمار سیاسی ساتھیوں اور دوستوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔
وہ گذشتہ چند سالوں سے جگر کے کینسر میں مبتلا تھے، انہوں نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل کیموتھراپی کے علاج کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ان کی نماز جنازہ میں سیاست دانوں، وکلاء، ادیبوں، دانشوروں، طلبہ،مزدور اور کسان تنظیموں کے رہنماؤں اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت سینئر نائب صدر اختر حسین، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر بخشل تھلہو، بزرگ مزدور رہنماعثمان بلوچ، خرم علی، ابیرہ اشفاق، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کے اریج حسین، اور پروگریسیو اسٹوڈنیٹس فیڈریشن اور دہگر تنظیموں کے رہنماوں اور کارکنان سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔
مرحوم کی غائبانہ نماز جنازہ پشاور پریس کلب میں ادا کی گئی جس میں عوامی وکرز پارٹی خیبر پخونخواہ کے رہنماؤں سمیت عوامی نیشنل پارٹی، مزدور کسان پارٹی، پشتون تحفظ موومنٹ، کمیونسٹ پارٹی پاکستان کےرہنماؤں غلام احمد بلور، افضل خاموش، ڈاکٹر مشتاق، مختار باچا، امداد ۡاضی، پروفیسر سرفراز سمیت دیگر نے شرکت کی۔
عوامی ورکرز پارٹی کا تعزیتی بیاں
عوامی ورکرز پارٹی کی قیادت، گہرے دکھ اور افسوس کے ساتھ، بزرگ بلوچ ترقی پسند رہنما اور پارٹی کے مرکزی صدر کامریڈ یوسف مستی خان کے انتقال کا اعلان کرتی ہے
ایک مشترکہ بیان میں عوامی ورکرز پارٹی کے بانی صدر عابد حسن منٹو، سینئر نائب صدر اختر حسین ایڈووکیٹ، نائب صدر شہاب خٹک ایڈوکیٹ، جنرل سیکرٹری بخشل تھلہو، ڈپٹی جنرل سیکریٹری ڈاکٹرعاصم سجاد اختر، صوبائی صدور حیدر زمان (خیبر پخوتنخوا)، یوسف کاکڑ (بلوچستان)، ضیاء بھٹی ( سندھ)، فرحت عباس ( سرائیکی وسیب)، عمار رشید ( پنجاب)، بابا جان (چیئرمین عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان)، نثار شاہ (چیئرمین عوامی ورکرز پارٹی جموں کشمیر)، ڈاکٹر فرزانہ باری (خواتین سیکرٹری)، عصمت شاہ جہاں (آرٹ و کلچر سیکرٹری)، دلاور عباس (سیکریٹری لیبر)، کفائیت اللہ (سیکریٹریری کسان کمیٹی)، حمزہ ورک (سیکریتری تعلیم و تربیت)، نے اپنے رہنماء کی وفات کو نہ صرف پارٹی کے لیئے بلکہ پورے پاکستان کی ترقی پسندقوتوں، مظلوم قوموں بلخصوص بلوچستان اور دیگر لسانی گروہوں اور طبقون کی جدوجہد کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔
انہوں نے یوسف مستی خان کے لازوال قربانیوں، ترقی پسند نظریات سے آخری سانس تک وابستگی، آمرانہ حکومتوں، اسٹبلشمینٹ اور رجعت پسند قوتوں کے خلاف بہادرٰ سے لڑنے اور للکارنے کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ترقی پسند اور بایاں بازو کے قوتوں کو اکٹھا کرنے اور ایک متبادل قوت کے طور پر ان کی رہنمائی کے لئے ان جیسے قد آور، بہادر اور زیرک رہنما کی ضرورت تھی، یوسف صاحب کے وفات سے ان کوشیشوں کو دھچکہ لگا ہے۔
ان رہنماوں نے عہد کیا کہ وہ اپنے رہنما کے ادھورے خواب کی تعبیر کے لیئے جدوجہد کو تیز کرین گے اور پاکستان کو عالمی سامراج اور اس کے مالیاتی اداروں اور مقامی گماشتہ حکمران طبقوں کی غلامی سے آزاد کرنے اور مظلوم و محکوم قومیتوں اور محنت کش طبقات، کسانوں، مزدوروں، طالب علموں، عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کو ان کے استحصال سے نجات دلانے اور سماجی انصاف، قومی و صنفی برابری کے قیام کے لیئے تمام ترقی پسند قوتوں کو متحد کرکے جدوجہد کو آگے بڑھائنگے۔
حیات و سیاسی جدوجہد
بلوچ قومی تحریک کے ساتھ ساتھ پاکستان کے محنت کش طبقے کے تاحیات اور پرجوش سیاسی کارکن، یوسف مستی خان کراچی میں پیدا ہوئے، وہیں پرورش پائی اور اپنی پوری زندگی بسر کی، لیاری کے تاریخی بلوچ علاقے سے دو بار انتخابات میں حصہ لیا۔ کراچی کے کثیر النسلی محنت کش طبقے اور مقامی آبادیوں کی روزمرہ کی جدوجہد میں ان کی شمولیت ان کے آخری ایام تک نمایاں رہی جب انھوں نے خاص طور پر کراچی انڈیجینس رائٹس الائنس بنا کر کام کیا۔ جس نے بحریہ ٹاؤن جیسے بڑے رئیل اسٹیٹ مافیہ کی زمینوں پر قبضے کے خلاف بے دخلیوں سے بچاؤ کی مہم چلائی۔
یوسف مستی خان کے سیاسی جدوجہد میں سب سے زیادہ سرگرم برس، معروف بلوچ ترقی پسند میر غوث بخش بزنجو کی سرپرستی میں گزرے۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کے قیام، 1973 میں آئینی معاہدے پر دستخط کرنے، اور نیپ حکومت کی برطرفی کے بعد حیدرآباد سازشی مقدمے کے دوران بھی وہ میر صاحب کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ کئی سال بعد جب میر صاحب کا انتقال ہوا تو یوسف مستی خان کو پاکستان نیشنل پارٹی کی صدارت وراثت میں ملی۔ انہوں نے عابد حسن منٹو، اختر حسین اور پاکستان کے دیگر بائیں بازو کے بڑے رہنماؤں سے مل کر 1999 میں نیشنل ورکرز پارٹی کو قائم کیا۔
جہاں سرد جنگ کے خاتمے نے بائیں بازو کی سیاست کی مستقل موت کا اشارہ دیا، یوسف مستی خان نسلی، قومی جبر، طبقاتی استحصال اور عسکریت پسندی کے خلاف جدوجہد میں ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ انہیں 2007 میں مشرف آمریت نے “نوآبادیاتی امن عامہ کے قوانین” کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، ان کی گرفتاری ان مشہور نمایاں واقعات میں سے ایک تھی جس نے فوجی حکومت کے خاتمے میں تیزی لائی تھی۔
2012 میں، یوسف مستی خان عوامی ورکرز پارٹی کی تشکیل کے لیے متحرک قوتوں میں سے ایک تھے۔ عوامی ورکرز پارٹی کی تشکیل کے بعد سے دس سالوں میں مختلف مقامات پر، انہوں نے سندھ کے صدر، وفاقی سینئر نائب صدر، اور آخر میں، صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پچھلے سال کے آخر تک، یہاں تک کہ جب وہ کینسر کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے، یوسف مستی خان گوادر میں بلوچ عوام کے ساتھ جدوجہد کی صف اول پر کھڑے تھے، جہاں ان پر ساحلی علاقے کے ماہی گیروں کے دھرنے میں تقریر کرنے پر بغاوت کے الزامات لگائے گئے اور جیل میں ڈالا گیا۔
یوسف مستی خان بلوچ قوم پرستی اور بائیں بازو کے ترقی پسند نظریات کی مجسم تصویر تھے۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی ان اصولوں کو مجسم بنانے میں گزار دی جن کے لیے وہ کھڑے تھے۔ ترقی پسندی کے فروغ میں، ان کی آخری شراکت ان کے جدوجہد کے پختہ عزم کی ایک پُرجوش یاد دہانی تھی جب جون 2022 میں انہوں نے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے قیام کی صدارت کی، جو ایک وسیع البنیاد ترقی پسند اتحاد ہے جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ، روایتی بورژوا جماعتوں، مذہبی دایاں بازو اور موجودہ دور کے بڑھتے ہوئے عمران خان جیسے رجعت پسندوں کا مقابلہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
ان کے انتقال نے پاکستانی ترقی پسندوں کو اتحاد کے لیے انتہائی اہم قیادت سے محروم کر دیا، لیکن ان کا تصورِ جدوجہد، ہماری رہنمائی کرتا رہے گا۔