اورنگی نالہ اور گجر نالہ متاثرین کے ساتھ کشمیر و فلسطین جیسا سلوک بند کیا جائے

کراچی بچاؤ تحریک کی جانب سے مسماریوں کے خلاف گھر بچاؤ مارچمارچ 21 بروز اتوار کراچی بچاؤ تحریک کے بینر تلے گجر نالہ و اورنگی نالہ متاثرین، عوامی ورکرز پارٹی، لیاری عوامی محاز، پاکستان مزدور کسان پارٹی، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے کراچی پریس کلب پر بھرپور مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں خواتین اور بچوں سمیت بھای تعداد میں کراچی کے شہریوں نے شرکت کی اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔گجر نالہ متاثرین کے رہنما عابد اصغر کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنا بچپن اور جوانی ان گھروں میں گزاری ہے۔ آپ کے لئے یہ پتھر اور پلاستر ہیں لیکن ہمارے لئے یہ ہماری زندگی ہیں۔ یہ مکانات ہمارے باپ دادا نے اپنی ساری زندگی کی کمائی لگا کر خریدے ہیں اور جس طبقے سے ہمارا تعلق ہے اس کے لئے دوبارہ اس شہر میں مکان بنانا ناممکن ہے۔ ہمارا صرف یہ مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہمیں اس ہی ضلع میں متبادل مکان دیا جائے اورتب تک کے لئے اس آپریشن کو روکا جائے۔

کراچی بچاؤ تحریک کے کنوینر اور عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے جنرل سیکریٹری خرم علی نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کراچی وسطی اور اورنگی ٹاؤن میں ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جیسے وہ کشمیر یا فلسطین ہو۔ وہاں کے جائز شہریوں کو قبضہ گیر کہہ کر ان کے گھروں سے پولیس اور رینجرز کی مدد سے بزور بازو اٹھایا جا رہا ہے۔ اگر کوئی سوال بھی پوچھ لے تو اسے ہراساں اور گرفتار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف بلڈر مافیا جو واقعی قبضہ گیر ہے اسے ریاستی حفاظت بھی فراہم کی جا رہی ہے اور راؤ انوار جیسے افسر ان کے لئے ملیر و گڈاپ سمیت کراچی بھر کی زمینوں کو بھی بزور بازو خالی کرا رہے ہیں۔کراچی بچاؤ تحریک کی رہنما اور لیگل ایڈوائزر عبیرا اشفاق کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر کی غلط تشریح کر کے لیزڈ مکانات کو قبضے کے زمرے میں ڈال کر کراچی کی ایک بڑی آبادی کی زمینوں کو کنسٹرکشن کمپنیوں اور ورلڈ بینک سے مال بنانے کے لئے خالی کرایا جا رہا ہے۔ یہ آبادیاں محنت کش طبقے پر مشتمل ہیں جن کو نہ قانونی چارہ جوئی کا اتنا علم ہے اور نہ ہی ان کے پاس قانونی لڑائی لڑنے کے وسائل ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر تیزی سے ان کی زمینیں توڑی جا رہی ہیں۔ کراچی بچاؤ تحریک اب تک 100 سے زائد اسٹے لے چکی ہے لیکن اتنی بڑی آبادی کے کاغذات جمع کرنے اور درخواستیں فائل کرنے میں وقت لگتا ہے جس کا فائدہ بلڈر مافیا کے لئے کام کرنے والی یہ حکومتیں اٹھا رہی ہیں۔ک

راچی بچاؤ تحریک کی رہنما اور ریسرچ ایڈوائزر فضا قریشی کا کہنا تھا کہ سروے تک کا کام انتہائی غلط انداز میں کیا گیا ہے جہاں کئی گھرانوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں سیلا ب گجر نالے کی وجہ سے نہیں بلکہ ڈیلٹا ز اور سمندری پٹی پر قبضہ کر کے بنائی گئی پوش کالونیوں اور بڑے بڑے پلازہ سے بنتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم اول تو صرف انکروچرز کے لئے تھا لیکن اس حوالے سے بھی حکم یہ تھا کہ پہلے اس ہی حساب سے ان کو متبادل فراہم کیا جائے۔ یہ حکومتیں توڑنے والے حکم پر تو عمل کرتی ہیں جس کا فائدہ بلڈر مافیا کو ہے لیکن متبادل دینے والے حکم پر عمل نہیں کرتیں۔ تین سال سے کے سی آر متاثرین ملبے پر بیٹھے ہیں لیکن آج تک ان کو متبادل نہیں ملا۔لیاری عوامی محاز کے جنرل سیکریٹری عبدلخالق زدران کا کہنا تھا کہ اس شہر کی اشرافیہ نے ارزالیہ کو کچلنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ کراچی کی اکثریت کچی بستیوں میں رہتی ہے اور اقلیب جو بڑے بڑے محلوں میں زندگی بسر کرتی ہے مختلف وسائل کے ذریعے خود کو کراچی کا خیر خواہ ظاہر کر کے یہاں کی اکثریت کو قبضہ گیر اور نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے میں لگی رہتی ہے۔ اصلی کراچی لیاری اور لالو کھیت جیسی آبادیوں میں رہتا ہے اور وہ اس طبقاتی سلوک و نظام کے خلاف ضرور جدوجہد کرے گا۔

پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی کی آرگنائزر ذہابیہ نے اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان غیر انسانی غیر جمہوری اور غیر قانونی مسماریوں سے نوجوانوں پر گہرا اثر پڑتا ہے اور ان کی تعلیم ہی نہیں ساری زندگی متاثر ہوتی ہے۔ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی رہنما نورین فاطمہ نے کہا کہ اس پدرشاہانہ معاشرے میں گھر کا سب سے گہرا رشتہ خواتین سے ہوتا ہے اور وہ اس طرح کی مسماریوں سے شدید ذہنی و جسمانی کرب کا شکار ہوتی ہیں۔ حال ہی میں ایک خاتون کے گھر پر مارکنگ ہوئی تو وہ ہارٹ اٹیک سے انتقال کر

گئیں۔ جس انداز میں یہ آپریشن چل رہا ہے اسے سوا ریاستی دہشت گردی کے کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔پاکستان مزدور کسان پارٹی کے جنرل سیکریٹری قمر عباس کا کہنا تھا کہ یہ کھیل طبقاتی کھیل ہے جہاں بڑے سرمائے کی کھپت کے لئے محنت کشوں کو اجاڑا جا رہا ہے لیکن محنت کش طبقے کو یہ کھیل سمجھ آ رہا ہے اور وہ طبقاتی جدوجہد کے لئے دوبارہ منظم ہو رہا ہے۔اورنگی نالہ متاثرین کے رہنما انور خان کا کہنا تھا کہ اس کراچی شہر میں عوامی مرکز سے لے کر زیادہ تر بڑی بڑی بلڈنگز اورکالونیاں قبضے کی زمین پر بنی ہوئی ہیں لیکن بنی گالہ کی طرح ان تعمیرات کو تو جائز قرار دے دیا جاتا ہے لیکن محنت کش طبقے کے جائز مکانات کو بھی قبضے کا بتا کر توڑ دیا جاتا ہے۔کیفے پیالہ کے متاثرین کے رہنما شمس کا کہنا تھا کہ اس وقت ایک بڑی مافیا حکومت کے بھیس میں سرگرم ہے جو ہمیں ہماری جائز زاملاک سے بے دخل کر کے ان زمینوں کو بڑے بڑے بلڈروں کوبیچنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ورلڈ بینک سے متبادل گھر کے لئے ملنے والی رقم کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔ میں ارباب اختیار، میڈیا کے دوستوں اور خاص کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ اس غیر قانونی آپریشن کا نوٹس لیں جو آپ کے فیصلے کی غلط انداز میں من مانی تشریح کر کے جاری ہے۔آخر میں کراچی بچاؤ تحریک اور گجرنالہ متاثرین کمیٹی کے رہنما عارف شاہ نے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کراچی بچاؤ تحریک اجمہوری مظاہروں، قانونی کارروائی اور عالمی برادری میں ورلڈ بینک کے اس منصوبے میں ہونے والی زیادتیوں کو اجاگر کر کے اس جدوجہد کو تب تک جاری رکھے گی جب تک ہمیں ہمارے حقوق نہیں مل جاتے۔

لیلی رضاکراچی بچاؤ تحریک