عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) پرامن مارچ میں شرکت کرنے پر طلب علم اور سیاسی رہنماؤں اور دیگر افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے ۔ یہ اقدام اشتعال انگیز ، مضحکہ خیز اور اظہار رائے کی آزادی، پرامن اجتماع کی آزادی جیسے بنیادی حقوق جس کی آئین نے ضمانت دی ہے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خا ن ، جنرل سکریٹری اختر حسین اور ڈپٹی سیکرٹری عصمت شاہجہاں نے اپنے مشتر کہ بیان میں طلباء یکجہتی مارچ کے بعد پنجاب ، سندھ اور کے پی کے میں طلباء اور سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کیں ہے۔
اے ڈبلیو پی کےرہنماؤں نے اسٹوڈنٹ مارچ میں تقریر کرنے پر پنجاب یونیورسٹی میں پختون کونسل کے سابق چیئرپرسن عالمگیر خان وزیر کے اغوا پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
پنجاب پولیس نے سول لائنز پولیس اسٹیشن لاہور میں طلباء یکجہتی مارچ میں تقریر کرنے پر ڈاکٹر عمار جان ، فاروق طارق ، محمد شبیر ، کامل خان اور مشال خان کے والد اقبال لالہ کو ، بغاوت اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن ایکٹ کے الزامات کے تحت مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے ۔ مردان یونیورسٹی کا مقتول طالب علم ، جو انتہا پسندی اور جنونیت کا شکار ہوا اب مزاحمت کی علامت بن گیا ہے۔
ؑوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ طلباء نے اپنے حقوق کے لئے پرامن احتجاج کیا جس کا اعتراف خود وزیر اعظم عمران خان اور گورنر پنجاب نے بھی کئے۔ مگر پنجاب اور سندھ پولیس نے طلباء مارچ کے بعدپروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن ، اسٹوڈینٹس ایکشن کمیٹی ، ڈبلیو ڈی ایف اور عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ طلبا ءمارچ کے شرکاء یونین کی بحالی ، بہتر تعلیم کی سہولیات ،اعلی تعلیمی اداروں میں سیکوریٹی کے نام پر طالبات کو ہراساں ہونے کا خاتمہ اور تشدد سے پاک ایک ایسے جمہوری معاشرے کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے جہاں ہر شخص عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزار سکے ۔
اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے کہا کہ نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف بلوچستان اور سندھ میں جاری ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ ، دھمکیوں اور ہراساں کرنے کی موجودہ لہر سے سوائے اس کے کہ سماج ،جس کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمےداری ہے، کے درمیان خلیج اور بیگانگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
ان رہنماوں نے کہا کہ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان نے طلباء یونینوں کی بحالی اور ان کے دیگر مسائل کوحل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور وفاقی اور صوبا ئی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ طلبا کے حقوق کے تحفظ اور ان کی مسائل کے فوری حل کے لئے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دیں ، تو دوسری طرف ان کی حکومت پرامن طلباء اور دیگر شہریوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروا رہی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی اظیار ، اختلاف رائے کی آزادی اور پرامن اجتماع اور علمی آزادی پر حملہ ہے۔
ان رہنماوں نے مطالبہ کیا کہ طالب علم اور سیاسی رہنماوں کے خلاف ایف آئی آر کو فوری طور پر واپس لینے اور وزیر کی بازیابی اور بلوچستان ، سندھ ، کے پی ، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں کارکنوں کو دھمکیاں دینے اور ہراساں کرنے کا سلسہ بند کیا جائے۔
جا ری کردہ: سیکرٹری اطلاعات