لایور،29 اگست 2021-عوامی ورکرز پارٹی افغانستان تیزی کے ساتھ بگڑتی ہوئی صورتحال، اور انسانی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتی ہے۔
پارٹی گذشتہ دنوں کابل آئرپورٹ پر دہشت گردی جس کے نتیجے میں دو سو سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں۔ پارٹی عالمی برادری اور علاقائی ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اس صورتحال کے پیش نظر افغانستان میں متحارب قوتوں کے درمیان مصالحت اور تمام سیاسی قوتوں پر مشتمل عبوری حکومت قائم کیا جائے اور وہاں لوگوں کو بنیادی انسانی ضروریات اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
پارٹی افغانستان کے لوگوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور سامراجی پالیسی کے نتیجے میں افغانستان کو طالبان اور دیگر مسلح گروہوں کے رحم وکرم پر چھوڑنے اور بنیادی انسانی حقوق بالخصوص عورتوں پر مظالم کی مذمت کرتی ہے۔
پارٹی نے افغانستان اور خطے کے ترقی پسند قوتوں کے اتحاد اور اس خطے میں گذشتہ چار دہائیوں سے جاری سامراجی سازشوں اور جدید نو آبادیاتی غلبہ کو روکنے پر زور دیا۔
یہ باتیں عوامی ورکرز پارٹی کے وفاقی ایگزیکٹو کمیٹی کے لاہور میں منعقدہ ہفتہ 29اگست کے اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ افغانستان کے بحران کے نتیجے میں لوگوں کی مہاجرت اور اس کا پاکستان کے سیاست، سماج اور معیشت پر پڑنے والے اثرات پر غور کرنے کے لئے تمام ترقی پسند، قوم پرست انسان دوست تنظیموں اور تحریکوں کو ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کے لئے رابطہ کریں۔
پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء اور اس کے بعد طالبان نے افغانستان پر جو ڈرامائی کنٹرول حاصل کیے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ نام نہاد ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ جسے بیس سال تک افغانستان پر حملہ اور قبضہ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا، نے اس ملک کو افرا تفری اور لاقانونئت کے دلدل میں پھنک دیا ہے اور غریب محنت کش عوام، عورتوں اور بچوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔
افغانستان پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ اور پرتشدد معاسشرہ بن گیا ہے۔ جس کے اثرات لا محالہ پاکستان کے معاشرہ پر پڑے گا اور دایاں بازو اور رجعت پسند قوتیں مضبوط اور مذہبی انتہا پسندی، غیر جمہوری قوتوں کا جمہوری اداروں اور وسائل پر قبضہ گیری میں اضافہ، اور بحران زدہ معیشت پر مزید بوجھ بڑھ جائیگا۔ سندھ اور بلوچستان کے ڈیموگرافی میں تیزی کے ساتھ تبدیلی آئیگی اور لسانی نفرتوں میں اضافہ ہوگا۔ اسلئے یہ ضروری ہے کہ تمام صوبے مہاجروں کے بوجھ کو برداشت کریں۔ پاکستان کے اسٹبلشمینٹ سمیت پڑوسی ممالک افغانستان کے معاملات میں مداخلت جاری رکھے ہوئے ہیں جو خطے میں مزید بحرانوں کو جنم دے گا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر زمینوں اور وسائل پر قبضہ گیری کے عمل میں تیزی آئیگی۔
اے ڈبلیو پی کی قیادت نے کہا ہے کہ سامراجی جنگوں کا بنیادی مقصد کبھی بھی عام لوگوں کی فلاح و بہبود، یا ‘مذہبی عسکریت پسندی’ کا خاتمہ نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضہ اور جدید نو آبادیاتی نظام کو پھیلانا اور استحصال ہوتا ہے۔
پانچ دہائیوں سے زائد عرصے سے افغانستان، تزویراتی گہرائی اور اسٹریٹجک مقابلہ بازی کا میدان جنگ رہا ہے جس میں امریکہ ، پاکستان ، ایران ، چین ، روس اور بھارت سب فریق ہیں۔ یہ افغان عوام ہی ہیں جنہوں نے بار بار ان اسٹریٹجک جھگڑوں کے نتائج کا سامنا کیا ہے ، اور دوحہ میں ہونے والے ‘امن مذاکرات’ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ افغان عوام کو اسٹریٹجک مفاد کی قربان گاہ پر قربان کیا جا رہا ہے۔
اے ڈبلیو پی کا خیال ہے کہ سامراج نے ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کی ہے اور آج بھی طالبان کی افغانستان میں غلبہ اور پاکستان میں ان کے حامیوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ کابل میں اقتدار میں شراکت داری کے کسی بھی انتظام میں وار لارڈ اور طالبان کا تسلط قائم کرنے کی کسی بھی کوشیش کا پاکستان پر دور رس اثرات مرتب کرے گا۔
پار ٹی نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ طالبان افغان سرحد پر فاٹا کے سابق اضلاع میں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔ پشتون اور بلوچ علاقوں کے ساتھ ساتھ ، پاکستان کے تمام نسلی علاقوں کو، بے انتہا دہشت، خوف اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
اے ڈبلیو پی کا خیال ہے کہ افغانستان ، پاکستان اور خطے میں ترقی پسندوں کو علاقائی اورعالمی اداروں کی جانب سے عسکریت پسندی کی حوصلہ افزائی اور جنگی کھیلوں کی شکل میں مکمل انحطاط کو روکنے کے لیے صف بندی کرنا ہوگا۔
پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے پاکستان پر مسلط ہائبرڈ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں بیروزگاری، معاشی بحران، مہنگائی اور بدعنوانی اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے جس کی تصدیق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی کی ہے۔ اسٹبلشمینٹ کی جمہوری اداروں اور عدلیہ میں مداخلت، میڈیا، شخصی آزادی، اظہار رائے پر بڑھتی ہوئی پابندیاں اور خواتین کے خلاف بڑھتی ہوئی جنسی جرائم پر تشویش کا اظہار کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ان کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
اے ڈبلیو پی تمام ترقی پسند قوتوں پر زور دیتی ہے کہ وہ متحد ہو کر اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سامراجی سرپرستوں اور مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور غربت، افلاس، بیروزگاری، مہنگائی اور ماحولیاتی تباہی سے عوام کو بچانے کے لئے کم سے کم نکات پر متفق ہو کر ایک متبادل پروگرام پیش کریں۔