عورت مارچ کے خلاف ردعمل کا نشانہ واضح طور پر اسلام آباد میں مقیم ترقی پسند اور خواتین حقوق کے کارکن ہیں
کراچی : عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) نے 8 مارچ کو منعقدہ عورت آزادی مارچ کے تقریبا تین ہفتوں سےجاری ترقی پسندسیاسی کارکنوں بالخصوص خواتیں حقوق کے کارکنوں کے خلاف جاری زہریلہ اور نفرت آمیز مہم کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اے ڈبلیو پی کی وفاقی ، صوبائی قیادت اور کارکنوں نے اسلام آباد میں ترقی پسند سیاسی کارکنوں، جن پر اسلام کے خلاف نعرے لگانے اور بینرز اٹھانے کے جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کی جارہی ہے ، کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عہد کیا ہے ، اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان انتہا پسند عناصر جو مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں اور ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ،کے واضح اقدامات اٹھائیں۔
اے ڈبلیو پی کے وفاقی صدر یوسف مستی خان ، جنرل سکریٹری اختر حسین ، پنجاب کے صدر عمار رشد ، سندھ کے صدر بخشل تھلہو ، کے پی کے صدر حیدر زمان ، بلوچستان کے صدر یوسف کاکڑ ، سرائیکی وسیب کےصدر فرحت عباس اور سکریٹری خواتین عالیہ بخشل نے ایک بیان میں یہ واضح کیا ہے کہ اگرچہ رجعت پسند قوتوں کی جانب سے گذشتہ چند سالوں سے عورت مارچ کے خلاف جوابی رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے ، مگر اس سال جس رکیک انداز اور منظم انداز میں ردعمل سامنے آیا ہے اس سے یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ اسلام آباد میں ترقی پسند سیاسی کارکنوں کو ایک منظم انداز سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی اور پشاور کی مقامی عدالتوں کے دو حالیہ احکامات جن میں دونوں شہروں میں پولیس کو عورت آزادی مارچ اسلام آباد کے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی گئی ہے سے اس واضح منصوبہ پر عمل پیرا کی نشاندہی ہو رہی ہے جو 8 مارچ کے فورا بعد نظر آرہی ہے۔ جس میں مبینہ طور پر کراچی اور لاہور میں ہونے والی مارچ کےواقعات اور بینرز کو اسلام آباد سے منسوب کی گئیں ہیں۔
اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ ان الزامات میں دو خاص واقعات یعنی لاہور مارچ کا بینر اور کراچی مارچ میں لگائے گئے نعرے بازی کی ویڈیو ، جن کا اسلام آباد میں ہونے والے عورت آزادی مارچ کے پروگرام سے کوئی تعلق نہیں ہے ، کو بار بار دہرایا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بینر اور ویڈیو کو مسخ کرکے توہین آمیز مواد پھیلائی جانے والی پروپیگنڈے اب مکمل اور یقینی طور پر بے نقاب ہو گیا ہے اور دم توڑ چکی ہے ۔ لیکن یہ بے بنیاد الزامات اور جھوٹ اب بھی گردش کرتے رہتے ہیں اور اسلام آباد میں مقیم سیاسی کارکنوں کو بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اے ڈبلیو پی کی قیادت نے خاص طور پر اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ اب یہ جھوٹ عدالتوں تک پہنچ چکا ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک نظیر کی نشاندہی کرتا ہے ، خاص طور پر جب کہ اسلام آباد ، کراچی ، پشاور اور دیگر تمام شہروں میں جہاں عورت مارچ کی سرگرمیاں ہوئیں ، مقامی پولیس اور انتظامیہ نے کسی قابل اعتراض مواد یا نعروں کے ٹھوس ثبوت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا۔
اے ڈبلیو پی نے مطالبہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اس کا نوٹس لے کہ اسلام آباد میں ان ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے جنہوں نے عورت آزادی مارچ کی شکل میں نہ صرف حقوق نسواں تحریک کی حمایت کی بلکہ تمام طبقاتی ، نسلی قومی ، ماحولیاتی اور جمہوری تحریکوں نے ترقی پسند قوتوں کی کے ساتھ مسقل مزاجی کے ساتھ کحڑے رہے ، کے خلاف ایک خوفناک مہم چلائی جارہی ہے ۔
اگرچہ یہ پی ٹی آئی کی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پرامن سیاسی کارکنوں کی حفاظت اور اس بات کو یقینی بنانا کہ مشکوک عناصر واضح طور پر جعلی دستاویزی مواد کی بنیاد پر مذہبی جذبات کو بڑھکا نہ دیں ، لیکن اے ڈبلیو پی نے تمام ترقی پسندوں اور جمہوری قوتوں کو اس مظالم کے خلاف واضح طور پر کھڑے ہونے کی اپیل کیا ہے۔ بڑھتے ہوئے جبر کے اس ماحول میں ، یہ ضروری ہے کہ تمام ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی آزادیوں اور اسلام آباد کے ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے دفاع کے لئے متحد ہو کر کھڑہے ہوں اور رجعت پسند قوتوں کو پیچھے دھکیلیں جو صنف ، نسل ، مذہب یا ذات پات سے قطع نظر تمام پاکستانیوں کی برابری ، آزادی اور وقار کی بات کرنے والوں کو دہشت زدہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔