لاہور ، 20 جون۔ عوامی ورکرز پارٹی نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ وہ 27 جون سے پورے ملک سمیت کشمیر اور گلگت بلتستان میں زمینوں، جنگلات، معدنیات ، پہاڑوں، ٓابی ذخایر پر وحشیانہ طریقے سےقبضے کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلاےٗ گی اور اس سلسلے میں مظاہروں اور کانفرنسوں کاانعقاد کرے گی۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ عالمی اور مقامی طاقتور سرمایہ دار گروہ اور ریاستی ادارے ان وسایل پر قبضہ گیری کے ذریعے لاکھوں محنت کش لوگوں کو بے دخل کررہے ہیں جس کے نتیجے میں غیرمعمولی معاشرتی، ماحولیاتی اور سیاسی بحران پیدا ہو رہے ہیں۔
اتوار کے روز دو روزہ وفاقی کمیٹی کی اجلاس کے اختتام پر لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے عوامی ورکرز پارٹی کی صدر یوسف مستی خان، سیکریٹری جنرل اختر حسین، ڈاکٹر فرزانہ باری، گلگت بلتستان کے رہنما بابا جان، فیڈرل کمیٹی کےرکن ڈاکٹر عاصم سجاد اختر، سندھ کے صدر ڈاکٹر بخشل تھلہو، خیبر پختونخوا کے صدر اخوندزادہ حیدر زمان، پنجاب کے صدر عمار رشید ، سراییکی وسیب کے صدر فرحت عباس اور ویمن سیکریٹری عالیہ بخشل نے اعلان کیا کہ پارٹی کے تمام یونٹ بحریہ ٹاؤن کراچی کی مقامی لوگوں کی زمینوں پر بے لگام قبضہ اور کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں کچی آبادیوں کو گرانے کے خلاف 27 جون کو ملک گیر احتجاج کریں گے ۔
پارٹی کی قیادت نے اس سلسلے میں 11 جولائی کو اسلام آباد میں “قبضہ گیری ، بیدخلی اور ترقی” کے موضوع پر ایک قومی کانفرنس منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا جس میں ملک بھر سے ترقی پسند اور جمہوری قوتیں عوام دوست اور ماحولیات دوست پائیدار ترقیاتی کے متبادل نظام کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے اکٹھا ہو کر صلاح مشورہ کریں گے اور مستقبل کا لایٗحہ عمل طے کریں گے۔
اسٹیبلشمنٹ ، سامراجی طاقتوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کی عوام دشمن رویہ کے پیش نظر کچھ پا پولسٹ قوتوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ اعلی عدلیہ عوامی مفاد کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ لیکن معاشرے کے غریب ترین اور سیاسی طور پر کمزور طبقہ کو منافع خور مافیا سے بچانے کی بجائے ، سپریم کورٹ نے ’تجاوزات‘ کے خاتمے کے نام پر کراچی میں جاری انہدام کاحکم دیا ہے۔ وہی عدالت عظمی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ناقابل احتساب ریاستی اداروں کی زمینوں پر قبضہ گیری اور دیگر غیر قانونی معاشی سرگرمیوں پرخاموش رہی۔
بڑی سیاسی جماعتیں، دانشور اور کارپوریٹ میڈیا محنت کش عوام کو متحرک کرکے اسٹیبلشمنٹ کے تابع نظام کو تبدیل کرنے اور ان بحرانوں کا خاتمہ کرنے کے لئے نہ تو تیار ہیں اور نہ ہی اس کے قابل ہیں۔ اس کے باوجود محنت کش عوام زمینوں اور وسایل پر مسلح طاقت کے ذریعے قبضہ گیری اور بیدخلیوں اور دیگر معاشی مشکلات کے خلاف بہادری کے ساتھ کہیں خود رو طریقے سے اور کہیں کراچی بچاو تحریک اور سندھ انڈیجنس راٗٹس الاینس کی بحریہ ٹاون کی قبضہ گیری کے خلاف مزاحمتی تحریک چلا رہے ہیں ۔ بے دخلی کا سامنا کرنے والے گجر نالہ اورنگی ٹاؤن نالہ کے کچی ابادی کے رہائشی بھی اے ڈبلیو پی اور کراچی بچاؤ تحریک کی حمایت سے مزاحمت کر رہے ہیں۔ یہ تحریکیں نیو لبرل سرمایہ دارانہ نظام جو انسانیت کو ایک ناقابل واپسی تباہی کی جانب دھکیل رہی ہیں کے برعکس ماحول دوست متبادل نظام پیش کررہے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی نے 2012 میں اپنے قیام سے ہی نوآبادیاتی نیولبرل پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرنے کا عہد کیا ہے اور اس مسئلے کو مرکزییت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
وفاقی بجٹ
اے ڈبلیو پی کی قیادت نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے غریبوں اور محنت کشوں کے ساتھ مزاق قرار دیا ہے جس میں بڑے کاروباری طبقہ کے لیے بے شمار مراعات رکھی گئی ہے جبکہ چند ‘غریب نواز’ اعلانات کے ذریعے محنت کش عوام کی توجہ ان کے معاشرتی اور معاشی بحرانوں سے جو گھمبیر شکل اختیار کر رہے ہیں سے ہٹانے کی کوشیش کی گیٗی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ دراصل اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی پیشرو حکومتوں کی طرح بے رحمی کے ساتھ آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ جس نے منظم طریقے سے لوگوں کو ان کے زمینوں اور وسایل سے محروم کرنے ، مزدوروں کو جبری بیدخلیوں کے ذریعے دھاڑی پر کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔ معاشی مشکلات وسیع پیمانے پر معاشرتی بحران میں شدت پیدا کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں مزدور طبقے ، خواتین ، مذہبی اقلیتوں اور معاشرے کے پسماندہ ترین گروہوں کے خلاف تشدد میں شدت ٓاگیٗی ہے۔
کرونا وباء نے 10 ملین محنت کشوں کو بے روزگار کردیا ہے اور 20 ملین افراد کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے ؛ عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، کیونکہ مالیاتی سرمایہ داری، زمین اور سرمائے کے چند ہاتھوں میں ارتکاز اور فطرت کے ظالمانہ استحصال کی وجہ سے امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب مزید غربت کے دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔
اس صورتحال سے خاص طور پر مذہبی انتہا پسند گروہوں کو موقع مل رہا ہے کہ وہ لوگوں کی بیگانگی کا فائدہ اٹھایٗں اور ان کی توجہ حکمران طبقوں کے ظلم ،استحصال اور معاشی بدحالی پر اپنا غصہ نکالنے کی بجاے انہیں مظلوم اور محکوم قوموں اور طبقوں کی طرف موڑیں۔
افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا
پارٹی کا موقف ہے کہ امریکی سامراجی فوجیوں کے انخلاء کے بعد افغانستان ایک قتل و غارت گری کا میدان بن جایٗگا ، اور یہ تشدد ممکنہ طور پر دونوں ملکوں کے سرحدوں کے قبائلی اضلاع اور ملک میں بڑے پیمانے پر پھیل جائے گا، کیونکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنے دیرینہ مقاصد یعنی افغانستان میں تزویراتی گہرایی کو حاصیل کرنے کے لیے اور اسٹبلشمینٹ مخالف قوتوں کے خلاف سیاسی جوڑ توڑ میں تیزی دکھا رہی ہے۔
اے ڈبلیو پی ہر طرح کے سامراجی سازشوں اور دباو کی مزاحمت کرنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے اور تمام ترقی پسند قوتوں سے متحد ہونے اور اسٹبلشمینٹ اور سامراجی کاسہ لیسوں اور ان کے سامراجی سرپرستوں کے مقابلے میں ایک متبادل پروگرام پیش کرنے ک کی اپیل کرتی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی پاکستانی حکومت کے ٓامریکہ کو فوجی اڈے اور زمینی اور مواصلاتی سہولیات دینے کے اقدام کی شدید مخالفت کرتی ہے جو علاقائی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو خطرے میں ڈالے گی۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے پختونخواہ اور بلوچستان میں تیزی سے فوجیوں کے غلبہ اور مقامی لوگوں پر بربریت اور پاکستانی مرکزی دھارے سے بیگانگییت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
جبری گمشدگی اور جبر کی دیگر اقسام جو عرصیہ دراز سے بلوچستان میں جاری ہے اب وبا کی شکل میں پھیل رہا ہے۔ اب ’ترقی‘ کے نام پر گوادر میں باڑ لگانے سے جو جبر کی علامت ہے ،اس میں مزید تیزی ٓایٗگی۔ حتی کہ ٰپنجاب میں بھی ترقی کے نام پر لوگوں کی بیدخلی میں تیزی ٓاگیٗی ہے۔ قبضہ گیری اور بیدخلی کی یہ پالیسی لاہور میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور راولپنڈی رنگ روڈ کے ذریعہ مقامی کسانوں کو جبری طور پر زمینوں سے بیدخل کرنے اور سوات میں خانہ بدوش قباٗیل کی بے دخلی کی شکل میں نظر اتا ہے۔
ماحولیات
سرمایہ دارانہ ترقی کے اس ماڈل سے مقامی ماحولیات پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں؛ دریائے سندھ پر بننے والے ڈیموں سے انڈس ڈیلٹا تباہ ہو رہا ہے؛ گلگت بلتستان میں گلیشیرز کےجھیلوں کے پھٹنے اورچترال میں دریا میں طغیانی سے سڑکوں کو پہنچنے والے نقصان اور تباہی، اور ڈیفنس ہاوسنگ اٹھارٹی ملتان میں توسیع کی وجہ سے سینکڑوں سالوں سے قاٗیم آم کے باغات کا خاتمہ ہو رہاہے۔
ایک طرف حکومت شجرکاری کے ذریعہ جنگلات میں اضافہ کا دعواء کر رہی ہے جب کہ دوسری طرف وہ غیر منصوبہ بندبے ہنگم ترقیاتی کمرشل منصوبوں اور شہروں میں توسیع کے ذریعے بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی میں مصروف ہے۔
پارٹی بلوچستان میں زمینی اور فوجی آپریشن کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پارٹی سندھ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو رہا کرے اور ان کے خلاف مقدمات واپس لے؛ پارٹی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سندھ، بلوچستان، کے پی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن بند کرے۔
پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، سامراجی طاقتوں اور حکمران طبقوں کی سیاسی جماعتوں کی عوام دشمن پالیسیوں کے مقابلہ میں عوام دوست سیاسی تحریکیں ہی لوگوں کو سماجی اور معاشی بحران سے بچا سکتی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی جانی خیل کے احتجاجی دھرنا کے شرکاٗ سے اظہار یکجہتی کرتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مقامی لوگوں کو انصاف مہیا کرے۔