عوامی ورکرز پارٹی نے طلباء یونین کی بحالی کے لئے طلباء کے یکجہتی مارچ کی حمایت کا اعلان کیا

پارٹی رہنماوں کا طلبہ یونین کی بحالی اور تعلیمی نظام میں بنیادی آصلاحات کا مطالبہ

عوامی ورکرز پارٹی 29 نومبر کو پاکستان بھر کے شہروں میں ہونے والے طلباء یکجہتی مارچ کے لئے اپنی مکمل حمایت کا اظہار کرتی ہے۔ پارٹی طلباء انجمنوں کی فوری بحالی اور ان کے اس بنیادی حق کے مکمل تحفظ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے معاملات کے بارے میں فیصلہ سازی میں ان کی نمائندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ .
عوا می ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر یوسف مستی خان اور ڈپٹی جنرل سیکریٹری عصمت شاہجہان نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ریاست نے تعلیم جیسے بنیادی شعبے کو مجرمانہ طور پر نظرانداز اور اسے نجی شعبے کے حوالہ کیاہے ، جنس کے نتیجے میں تعلیم کاحصول آبادی کی اکثریت کے لئے ناممکن اور ان کے قوت برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس فرسودہ نظام میں جہاں ایک طرف تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کو روکنے اور دائیں بازو کی تنگ نظری کے حامل نظریے کو فروغ دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب ان تمام طلباء اور اساتذہ پر بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے جو اس فرسودہ زوال پذیر نظام اور اس کے اندر موجود بدعنوانی کے خلاف مزاحمت کرنے کی جرات کرتے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے صدر نے کہا کیہ طلبہ یونینوں پر 35 سا لوں سے جاری پابندی کے نتیجے میں یونیورسٹیوں اور حکام نے طلباء کا استحصال اور ان کے ساتھ آئے دن تشدد اور ناروا سلوک کو مکلمل چھوٹ دی ہےجس نے تعلیمی نظام کے اندر مذید بگاڑ پیدا کیاہے۔
پارٹی رہنماون نے کہا کہ طلبا کی سیاست پر پابندی کے نتیجے میں ملک کے سماجی اور سیاسی نظام کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہے اور جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور فوجی اشرافیہ کے ایک چھوٹے طبقے کے ذریعہ سیاست میں اجارہ داری قائم کرنے کا سبب بنی ہے ، جبکہ نوجوانوں ، درمیانی طبقہ اور محنت کش طبقہ کی سیاست میں شرکت کو روکا ہوا ہے۔
اے ڈبلیو پی کے ڈپٹی سیکریٹری عصمت شاہجہان نے ملک بھر کے یونیورسٹیوں میں سیکوریٹی کے نام پر خوف و حراس کا غیر ضروری ماحول پیدا کرنے بلخصوص سندھ اور بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں ، جہاں طلبہ کی لاشوں کے ملنے کے خلاف احتجاج کو روکنےکے لئے فوجی اور نیم فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں میں حالیہ جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ کےاسکینڈل سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز طلباء خصوصا خواتین طالب علموں کے خلاف گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے کے لئے ان کی نگرانی کے اختیارات کو غلط استعمال کر رہی ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماوں نے طلبہ یونینوں پر پابندی کو ختم کرنے کے لئے فوری طور پر قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے اوریہ واضح کیا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے طلبا ءکی مدد کے لئے تمام دستیاب ذرائع کو استعمال کرے گی او رپاکستان میں تعلیمی نظام کی بحالی کے طلبہ کی جدوجہدکی حمایت کرتی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی مجموعی قومی پیداوار کا 10فی صد تعلیم پر خرچ کرنے اور عمومی طور پر بڑے پیمانے پر تعلیم عام کرنے کو ترجیح دینے ، اور تعلیمی نظام کو چلانے والے اداروںکو شہریوں اور طلبہ کے سامنے جوابدہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہے اس کے لئے جدوجہد کرنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے- تعلیم کے اخراجات میں اضافہ، اور بجٹ مختص کرتے وقت فاٹا کے سابقہ اضلاع ، دیہی بلوچستان ، سندھ ، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان سمیت نظرانداز کیے گئے علاقوں اور صوبوں کو ترجیح دینی چاہئے ۔
اے ڈبلیو پی تعلیمی نصاب کو سائنسی بنیادوں پراستوار کرنے کا مطالبہ کرتی ہے جو تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہو۔ اور ان تمام مواد کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے جو مختلف نسلوں ، صنفوں ، عقائد گروپوں اور طبقات کے خلاف امتیازی سلوک کو فروغ دیتا ہو۔
ساتھ میں اے ڈبلیو پی کے کارکن اور اسلام آباد مارچ کے منتظمین میں شامل عمار رشید نے یونیورسٹیوں میں جنسی ہراساں کرنے اور تشدد کی سیاست کے خاتمے کے لئے طلباء اور خواتین کی نمائندوں پر مشتمل بااختیار کمیٹیاں تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
اس کے ساتھ انہوں نے یونیورسٹیوں سے نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کا خاتمہ، اور طلباء کے اظہار رائے اور سیاسی سرگرمیوں کے حق کو مکمل تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ۔

پارٹی رہنماوں کا کہنا تھا کہ سیاسی اجتماع کو منظم کرنے کے الزام میں گرفتار یا اغوا کیئے جانے والے تمام طلباء (جن میں سے بیشتر بلوچستان اور سندھ میں ہیں) کو فوری طور پر رہا کیا جاہئے اور حال ہی میں جامشورو یونیورسٹی سندھ کے طلباء کے خلاف صاف پانی کے مطالبے کے الزام میں بغاوت کے کیس کو بھی واپس کیا جائے۔

جاری کردہ:
سیکریٹری ا طلاعات
عوامی ورکرز پارٹی