عوامی ورکرز پارٹی کی سویڈن میں بلوچ صحافی کے قتل کی مذمت

عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی)  سویڈن میں ایک بلوچ  صحافی کے  قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی  ہے اور اس کے خاندان کے ساتھ ہمدرہی اور یکجہتہ کا اظہا ر کرتی ہے۔

“ہمیں  افسوس  کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  سویڈن  جیسا  ملک  جسے   دنیا میں سب سے محفوظ جگہ سجھا جاتا ہے  ، ساجد بلوچ کی حفاظت میں ناکام ہوگئی”۔

صحافی ساجد حسین بلوچ  ایک نیوز ویب سائٹ ، بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر  تھے اور 2 مارچ  کو لاپتہ ہو گیا تھا ۔ اس کی لاش 23 اپریل کو سویڈن کے ایک  دریا  سے  برآ مد ہوئی ۔

انہیں بلوچستان میں   جبری  گمشدگیوں ،انسانی حقوق کی پامالیوں، اور ریاستی جبر منشیات کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد 2012 میں پاکستان چھوڑنا پڑا تھا  

اے ڈبلیو پی کے صدر یوسف مستی خان ، سیکرٹری جنرل اختر حسین ایڈووکیٹ ، سندھ کے صدر بخشل تھلہو، پنجاب کے صدر عمار رشید،  اورسرائیکئ  وسیب کے صدر فرحت عباس نے ایک مشترکہ  بیان میں  قومی سلامتی کی آڑ  میں بلوچوں اور پختون کارکنوں پر ہونے والے بڑھتے ہوئے  ریاستی جبر پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے اس خطرناک رجحان پر بھی پریشانی کا   اظہار کیا کہ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو ڈرا دھمکا ، اغوا ء ، تشدد اور ہلاک کیا جاتا ہے   اور  اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے خلاف ریاست کے   پروردہ   لوگوں کے ذریعے سماجی رابطہ کے  پلیٹ فارم پر کردار کشی  کی   مہم چلائی  جاتی ہے۔

اے ڈبلیو پی کے صدر  نے کہا کہ ساجد  بلوچ اور عارف وزیر کے قتل    ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ   ریاست اور اسٹیبلشمنٹ سے سوال کرنے والے افراد کی زندگیوں کوکتنا  خطرہ ہے۔جس کی مثال عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماء بابا جان اور اس کے 12 ساتھی ، انجمنِ مزارئین پنجاب کے مہر عبدالستار  اور دیگر بہادر کارکن  ہیں  جو  اپنے لوگوں کے لئے آواز بلند کرنے  کے جرم میں سالوں سے سلاخوں کے پیچھے گذار رہے ہیں۔

پارٹی رہنماؤں نے بابا جان کی رہائی کے اپنے دیرینہ مطالبے کا اعادہ بھی کیا ، جو گلگت بلتستان کے تمام سیاسی شعور رکھنے والے نوجوانوں کے لئے امید کی کرن اور  حوصلہ کا باعث  ہیں ، جو اس وقت ایک سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے  مقدمے میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔

 ان کا کہنا تھا کہ باباجان جیسے پرامن کارکنوں  کو ریاستی جبر اور انتقام کا  نشانہ بنانا صرف اور صرف گلگت بلتستان کے عوام  کے دلوں    میں مزید بد گمانیوں   کو بونا ہے –

 اختر حسین نے کہا  کہ ایک پرامن  معاشرہ  کا قیام اور خوشحال مستقبل اسی صورت  ممکن  ہے جب ریاست پاکستان  کے تمام لوگوں کو آئینی حقوق فراہم کرے۔

انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو موجودہ  عالمی وباء سے  سبق سیکھنے اور قومی سلامتی  کی بجائے  انسانوں کےتحفظ کی طرف اپنی توجہ مبذول کروانے کی ضرورت ہے۔مگر  ایسا لگتا  ہے   کہ ریا ست   مخا لفیں   کے خلاف جابرانہ اقدامات  کو مزید بڑھا رہی ہے۔

اے ڈبلیو پی سندھ کے  صدر ڈاکٹر بخشل تھلہو نے کہا کہ بلوچ اور پشتون سرزمین کے دو قابل فخر فرزند ساجد حسین  بلوچ اور عارف وزیر ان لوگوں کی صفوں میں شامل ہوئے جنہوں نے تمام اقوام کے محنت کش لوگوں کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں اور اپنے  آدرشوں کے لئے اپنے آپ کو قربان کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ریاست اپنے دلالوں کے ذریعے نفرت کی سیاست کو اس قدر پھیلا رہی  ہے جس کا  کوئی حد ود و قیود نہیں –

ہمیں نفرت سے بالاتر  ایک ایسے معاشرے کے تصورپر یقین رکھنا چاہئے جس میں انسانیت سب سے بلند تر ہو ، جس میں ہر طرح کے ثقافتوں   کو پھنلے پھولنے کا موقع مل سکے۔

اے ڈبلیو پی پنجاب کے صدر عمار راشد نے کہا کہ متشدد آوازوں کو پر تشدد طریقے سے خاموش کرانے کی مسلسل کوشییش خود کو شکستگی کی حکمت عملی ہے جس کا دور اب ختم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ قومی سلامتی کے نام پر ہونے والے جرائم پر جاگ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ   اب ملک بھر میں ساجد بلوچ اور عارف وزیر جیسے  بیہادر لوگوں  کے مطالبات جن میں عسکریت پسندی کی ریاستی پالیسی  کا خاتمہ اور لاپتہ افراد  کی باز یابی شامل ہیں  کی بازگشت سنائی دے گی ۔

عمار نے متنبہ کیا کہ جتنا ہم ان مطالبات کو نظرانداز کرتے رہیں  گے اتنا ہی ہم مستقبل کی نسلوں کو بھی اسی بے ہودہ قتل و غارتگری  ، نفرت اور خونریزی کی  آگ میں جھونکتے رہیں گے۔

اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے پاکستان اور سویڈن کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ساجد بلوچ کے قاتلوں کا سراغ لگائیں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔