کورونا وائرس کی وبا نے ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو کئی دہائیوں کے بعد ایک بار پھر سنگین ترین طبی، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ اس وقت جب کہ حکومتیں اور سیاسی رہنماء عالمی سطح پرسر جوڑ کے سوچ رہے ہیں کہ کیا کیا جائے، اس متعدی مرض سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں، بے روزگاری اور عالمی معاشی بدحالی کے امکانات تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔
بہت سارے ممالک اور معاشرے جو اس وائرس کی 'کم' شرح اموات' (صرف 2 سے 3 فی صد ) کی افواہوں کی وجہ سے دھوکا کھا گئے، اس کے بروقت سدباب میں ناکام دکھائی دیتے ہیں- ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ اب تک کا سب سے خطرناک متعدی مرض ہے جو بہت تیزی کے ساتھ چند ہفتوں میں وسیع تر انسانی آبادی میں پھیل جاتا ہے جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر ہلاکتں ناگزیر دکھائی دیتی ہیں۔
دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اسں وائرس نے ملک کے سیاسی، معاشی اور صحت کے ڈھانچوں کی ٹوٹ پھوٹ اور بوسیدگی کو بے نقاب کردیا ہے۔ کئی سالوں سے اس ملک پر مسلط جدید نوآبادیاتی پالیسیوں نے عدم مساوات کو بڑھاوا دینے اور عوامی بنیادی سہولتوں کے ڈھانچے کو سخت کھوکھلا کردیا ہے۔ یہ نظام اب اس وبائی مرض کے دباؤ کے نتیجے میں زمین بوس ہو تا دکھائی دے رہا ہے۔ منافعہ خوری کی بے مہار حوس، انفرادیت پسندی اور خود غرضی نے اس قسم کے بحرانوں سے نمٹنے میں اس نظام کی مجرمانہ غفلت کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ ایران اور اٹلی جیسے ممالک جو وقت گزرنے کے ساتھ وباء پر قابو نہیں پاسکے اب تباہی کے قریب پہنچ چکے ہیں، انہیں ہزاروں بلکہ لاکوں افرادکی موت اور مجموعی طور پر معیشت کے خاتمے کا سامنا ہے۔
صرف چین، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ،جنہوں نے شہروں اور آبادیوں کے گرد مکمل حصار قا ئم کر کے آمدورفت پر پابندی لگائی، وسیع پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ کروائے اور سماجی میل ملاپ سے فاصلہ رکھنے اور اجتماعات میں شرکت سے اجتناب جیسے اقدامات کے ذریعے کسی حد تک اس وباء کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔
صرف چین، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ،جنہوں نے شہروں اور آبادیوں کے گرد مکمل حصار قا ئم کر کے آمدورفت پر پابندی لگائی، وسیع پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ کروائے اور سماجی میل ملاپ سے فاصلہ رکھنے اور اجتماعات میں شرکت سے اجتناب جیسے اقدامات کے ذریعے کسی حد تک اس وباء کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں بھی صورتحال تیزی سے قابو سے باہر ہو رہی ہے، ان کے صحت کا ڈھانچہ (انفرا سٹرکچر ) چند ہفتوں کے اندر اندر اس وباء سے نمٹنے میں بالکل بے بس ہوتا دکھائی دے رہے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نئی ویکسین کو تیار ہونے میں 12 سے 18 مہینے لگ سکتے ہیں، اس دوران حکومتوں کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
اگر پاکستان کو اپنی کھوکھلی معیشت اور کمزور ترین صحتِعامہ کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ اور کسی معاشرتی، معاشی اور سماجی تباہی سے دوچار ہوئے بغیر اس بحران کے دبائو کو سہارنا چاہتی ہے تو اس کے لئے اسے بروقت سخت ترین اقدامات کرنے ہونگے جو بحران کے وسعت سے مطابقت رکھتا ہو اور لوگوں، خاص طور پر کمزور ترین حلقوں، عمر رسیدہ شہریوں، بیمار اور غریب لوگوں بل الخصوص شعبئہ صحت کے کارکنوں کو تباہی سے تحفظ دیتا ہو ۔
ہم اس وقت فیصلہ کرنے میں لیت و لعل اور اپنی سوچ کو محدود رکھنےکے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ اب ان تمام پرانے عقائد اور روایات جن کی ہم برسوں سے پیروی کرتے آئے ہیں، پر سوالات اٹھانے ہوں گے۔ اسپین جیسے ممالک نے راتوں رات صحت کی تمام سہولیات کو قومی تحویل میں لیا ہے یہاں تک کہ امریکہ جیسے سرمایہ دار معیشتیں بھی اس بحران میں لوگوں کی مدد کے لئے ایک عالمگیر بنیادی آمدنی کے نظام کے قیام کی بات کر رہےہیں۔ ہمیں بھی پرانے طور طریقوں اور دقیانوسی سوچ سے نکلنا چاہئے- اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، ہمیں تیزی کے ساتھ اور فیصلہ کن انداز میں کام کرنا ہوگا۔
کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیئے ذیل میں ہم نے ایک ہنگامی منصوبہ کا خاکہ پیش کیا ہے، جس میں عوام الناس کے لئے وائرس کے سدباب اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لئے صحتِعامہ، معاشی اور سماجی اقدامات شامل ہیں تاکہ مشترکہ کوششوں سے وباء کے اثرات کوحتی الا امکان کم کیا جا سکے۔