تحریر: اختر حسین
ہمارے ملک کے چند ایک صحافی اور تجزیہ نگار جن کی میں قدر کرتا ہوں اور ان کے کالم اور مضامین کو غور سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں خواہ ان کے نظریات سے اتفاق کرتے ہوں یا نہیں ان میں ایک معتبر نام جناب سلیم صافی کا ہے۔ان کے تجزیے اور تبصرے انتہائی دانش اور سنجیدگی پر مبنی ہوتے ہیں۔
ان کا روزنامہ جنگ میں تین روزہ کالم مورخہ 27اور28 اور29 جنوری 2024کو جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائین” کے عنوان سے بغیر کسی تبصرے کے شائع ہوا۔سوچا تھا جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن پر وہ ضرور تبصرہ بھی کریں گے لیکن انھوں نے جنرل صاحب کی تقریر جو انھوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے نمائندہ تقریبا دو ہزار طلبہ و طالبات اور وائس چانسلرز کے سامنے کی جوتین گھنٹے پر محیط تھی من و عن شائع کر دی۔جناب سلیم صافی کے مطابق ان کا خطاب اتنا جامع اور تفصیلی تھا کہ ان کے بعد نگراں وزیر اعظم جناب انوارالحق کا کڑ کو بلایا گیا تو وہ صرف اتنا کہہ سکے کہ آرمی چیف کے خطاب کے بعد ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ویسے بھی ہمارے ملک میں شروع سے (فیلڈ مارشل ایوب خاں سے جنرل عاصم منیر تک)آرمی چیف کے بعد کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
میں نے سوچا تھا کہ پاکستان کی 76سالہ تاریخ کے مختلف تجربات کے بعد جہاں دنیا میں بے پناہ سائنسی،معاشی،سیاسی و سماجی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم جس کے دوران ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان وجود میں آیا کن کن ادوار سے ہم گذرے۔ سامراجی فوجی معاہدوں نے ہماری معیشت اور سیاست پر کیا اثرات مرتب کئے، اس کے خاتمے،سویت یونین کے انہدام،دنیا کی نئی تقسیم، نئے تجربات ،سامراجی معیشت کے مقابلے میں چین کی ابھرتی ہوئی اشتراکیت پذیر معیشت اور ایک نئی سرد جنگ کی شروعات نئی علاقائی معاشی صف بندیوں، سائنس اور خاص کر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب جس نے انسانی تہذیب و ثقافت میں بے پناہ تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں اور پاکستان جو ابھی بھی قبائلی و جاگیرداری باقیات کا ملک ہے جہاں بنیادی جمہوری ادارے اور جمہوری قدریں متزلزل ہیں۔
حقیقی وفاقیت کے عدم موجودگی سے علیحدگی اور مذہبی انتہا پسندی کی مسلح تحریکیں ہیں،تعلیمی معیار انتہائی پسماندہ اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت 15سال کی عمر تک تعلیم لازمی ہونے کے باوجود دو کروڑ 80 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں تقریبا ایک کروڑ جدید ساٗینسی تعلیمی سہولتوں سے محروم مدرسوں میں پڑھتے ہیں۔تعلیم کا بجٹ1.75 فیصد سے بھی کم ہو کر1.63 فیصد رہ گیا ہے۔صحت پر ملک کا ایک فیصد بجٹ بھی خرچ نہیں ہوتا۔کئی دھائیوں پر محیط مذہبی اور مذہبی انتہا پسندی کی تعلیم و تبلیغ نے پورے سماج کو متعصب اور عدم برداشت کے لپیٹ میں لیا ہے۔ ملک کے بیرونی قرضے 128ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔کھربوں روپے کے اندرونی قرضے اس کے علاوہ ہیں۔تمام پڑوسی ملکوں سے خاص کر بھارت،ایران،افغانستان سے تعلقات ناگفتہ بہہ ہیں۔ملک میں غربت کی سطح 10 ڈالر ماہانہ کے حساب سے39.2فیصد ہے یعنی 24کروڑ میں سے 9کروڑ ساٹھ لاکھ سطح غربت سے نیچے رہتے ہیں،IMF اور ورلڈ بینک کی نئی پابندیاں عائد ہو رہی ہیں۔ فی الحال اس بحث کو چھوڑ دیں کہ افواج پاکستان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 243 سے 245 کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض کو انجام دینا چاہئے ، لیکن اس کے لیے تو تمام سیاسی پارٹیوں میں یہ کمنٹمنٹ چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی جد وجہد سے افواج پاکستان اور اُس کے اعلی افسران کو اس کے لیے مجبور کریں اور خلاف ورزی آرٹیکل چھ کے زمرے میں لائی جائے لیکن فی الحال تو فوج کے سربراہ نہ صرف ملکی معیثت کو بھی ٹھیک کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیئے ہوئے ہیں اور بڑی پارلیمانی سیاسی پارٹیاں سرنگوں ہیں لہٰذا ان معاشی،سیاسی و سماجی حالات میں توقع تھی کہ شاید پاکستان کے عقلمند ترین اور سب سے بااختیار انسان جو آرمی چیف ہی ہو سکتا ہے اور وہ دعوی بھی یہی کرتے ہیں پاکستان کے اندر نئی تبدیلیوں اور ترقی کی ڈاکٹرائن سے ان ہزاروں نوجوانوں جن سے وہ خطاب کر رہے تھے اور لاکھوں جنھوں نے سنا،بشمول ہمارے سول حکمرانوں اور تمام سیاسی پارٹیوں کی راہنمائی کریں گے۔
اُنھوں نے اپنی تقریر کا آغاز علامہ اقبال کے اس شعر سے کیا؎
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں ہوتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
لیکن نوجوانوں کو یہ نہیں بتایا کہ ان میں خودی کیسے پیدا ہوگی اور پھر خودی صورت فولاد کیسے بنے گی۔پھر انہوں نے اقبال کے فلسفہ خودی کی تشریح کیے بغیر فورا کہا : “کہ ہمارے آباﺅاجداد نے ہندﺅں سے آزادی حاصل کی کیونکہ ہمارا مذہب اور ہماری تہذیب رہن سہن ان سے مختلف ہے” اور برطانیہ پر اپنی برتری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ “وہاں عورتوں کو ووٹ کا حق ساٹھ کے عشرے میں دیا گیا جبکہ ہمیں 1947 ءمیں حاصل ہو گیا ۔دوسرا پاکستان اور ریاست مدینہ یا ریاست یثرب کی مماثلت بیان کی کہ دونوں کی بنیاد ہجرت پر ہے یعنی ہماری پہلی ہجرت خلافت تحریک کے دوران اور دوسری ہندوپاک کی تقسیم کے وقت“۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ نوجوان نسل کو کیا فکر دے رہے ہیں،کیا تاریخ پڑھا رہے ہیں؟ اور کیا تربیت کر رہے ہیں؟کیا ہم نے آزادی انگریز سامراج سے حاصل کی تھی یا ہندﺅوں سے؟یعنی نوجوان نسل کے سامنے انگریز سامراج کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے جنہوں نے سو سال سے زیادہ پورے ہندوستان پر حکومت کی اور ہم اُن کی معاشی و سیاسی غلامی میں رہے۔ اس سے پہلے کئی صدیاں برصغیر میں ہندو، مسلم اور دیگر کئی مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی تہذیب و تمدن کے ساتھ اکھٹے رہتے تھے، جہاں مسلمانوں نے تقریبا تین سو سال حکومت کی اور برطانوٰی نوآبادیاتی حکمرانوں نے مسلمان(مغل) بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ 1857سے1947تک ہم آزادی کی جدوجہد کے کن کن مرحلوں سے گذرے۔ منگل پانڈے سے لے کر لالہ لجپت رائے،اشفاق اﷲ خان اور بھگت سنگھ سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بے شمار ہیروز اور ہزاروںلوگوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں،اُن ہیروز کی قربانیوں کا ذکر کر کے ہی نوجوانوں کا جذبہ خودی بلند ہوگا۔
یہی وہ وقت ہے کہ ہم نئی نسل کو حقیقی آزادی کی فکر سے مسلح کریں،ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی وجوہات تو بالکل مختلف ہیں اور وہ یقیناً معاشی و سیاسی ہیں،مسلمان معاشی و سماجی طور پر پسماندہ کیوں رہ گئے تھے اور غیر مسلموں کی بالا دستی کا خوف کیوں تھا اس پر الگ سے تفصیل بیان کی جا سکتی ہے کہ اس میں ہندو مسلم تقسیم کے لیے انگریز سامراج کی سازشیں کتنی تھیں اور قائداعظم یا مسلم لیگ کے جائز مطالبات کے خلاف کانگریس کی لیڈرشپ کی ہٹ دھرمی یا تنگ نظری کتنی تھی کیونکر 1946 کے کیبنٹ مشن پلان یعنی ہندوستانی یونین کو قائم رکھتے ہوئے اے ۔ بی۔ سی پلان کو قائداعظم و مسلم لیگ نے تسلیم کرلیا تھا یعنی موجودہ پاکستان کے علاقے ‘اے’ بنگال اور آسام ‘بی’ اور باقی ماندہ ہندوستان’سی’۔ تینوں داخلی طور پر خودمختار اکائیاں ہونگی اور ہندوستانی یونین کے پاس صرف تین محکمے، امور خارجہ،دفاع اور مواصلات ہی ہوںگے جس کو مولانا ابولکلام آزاد نے بھی کانگریس کے صدر کی حیثیت سے تسلیم کر لیا تھا۔ مگر مولانا کے مطابق اسی وقت کانگریس کے انتخابات ہو رہے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کوئی ترقی پسند نوجوان اس کی قیادت کرے اور صدر بنے تو انھوں نے جواہر لال نہرو کا نام پیش کیا اور نہرو نے صدر منتخب ہونے کے بعد ایک سوال پر کہا کہ اس پلان کا فیصلہ آنے والی پارلیمنٹ کرے گی۔ گویا ان کے انکار کر دینے کے بعد قائداعظم نے کہا کہ اب تقسیم کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
یہاں میں نے کیبنٹ مشن پلان کا ذکر جنرل صاحب کی خاص ذمہ داری کے حوالے سے کیا ہے جو ملک کے دفاع اور سیکورٹی کے متعلق ہے۔ قائد اعظم نے ہمیشہ ہندوستا نی یونین کے اندر مختلف ریاستوں اور اکایوں کی خود مختاری کے لیے جدوجہد کی اور اس پر یقین رکھتے تھے کہ یونین یا وفاق کے پاس صرف تین ہی محکمے ہوں یعنی دفاع،امور خارجہ اور مواصلات۔ اسی لیے انھوں نے اے بی سی پلان کو منظور کر لیا تھا اور پاکستان کے قیام کے بعد جب ریاست قلات کا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ آیا تو جو خان آف قلات کے ساتھ انہوں نے معاہدہ کیا۔ ایسے ہی معاہدے دوسری ریاستوں کے ساتھ بھی کیئے (اس میں بھی وفاق کے پاس تین ہی محکمے رکھے گئے تھے یعنی پاکستانی وفاق کے پاس صرف دفاع،امور خارجہ اور مواصلات کے محکمے دیے گئے تھے باقی تمام معاملات میں ریاست قلات(موجودہ صوبہ بلوچستان) خود مختار ہو گی۔ حقیقی وفاقیت کے قیام کے لیے قائد اعظم کی سوچ یہی تھی۔
یہاں میں قارئین کے لیے ”ریاست قلات کے ساتھ الحاق کا معاہدہ“ کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں: ۔
ریاست قلات کے الحاق کی دستاویز
جیسا کہ قانون آزادی ہند1947 کے تحت پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ڈومینین کے طور پر وجود میں آیا اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 تمام کسی اضافہ و ترامیم کے ساتھ گورنر جنرل کے حکم سے نافذ ہوا۔
اور یہ کہ گورنر جنرل کا منظور کردہ1935 کا قانون یہ قرار دیتا ہے کہ ہندوستانی ریاستوں کے حکمران آزادانہ طور پر پاکستان کی ڈومینین کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں۔لہٰذامیں عالی مرتبت بیگلار بیگی خان آف قلات،حاکم ریاست قلات اس ریاست پر اپنے آزادانہ اور خودمختارانہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے الحاق کی اس دستاویز کو نافذ کرتا ہوں۔اور
۱۔ میں اس نیت کے ساتھ پاکستانی ڈومینین کے ساتھ الحاق کرتا ہوںکہ گورنر جنرل آف پاکستان،ڈومینین کی مقننہ،سپریم کورٹ اور دیگر ادارے جو ڈومینین کو چلانے کے لیے قائم کئے گئے ہیں وہ 1935 کے قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے ڈومینین اور ریاست کے تعلقات قائم رکھنے کے مد نظرالحاق کی اس دستاویز کا لحاظ رکھیں گے۔
۲۔ میں یقین کے ساتھ یہ ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ قانون کی عملداری میں ریاست کے اندراس الحاق کی دستاویزکو یقینی طور پر مد نظر رکھاجائے گا۔
۳۔ میں قبول کرتاہوں کہ اس دستاویز کے ساتھ منسلک شیڈول میںدیئے گئے معاملات کے مطابق ڈومینین مقننہ قانون سازی کر سکتی ہے۔
۴۔ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں اس یقین دھانی کے تحت ریاست کا ڈومینین کے ساتھ الحاق کر رہا ہوں کہ اگر گورنر جنرل اور ریاست کے حکمران کے درمیان ریاست کے اندر انتظامی معاملات کے بارے میں معاہدہ ہوتا ہے اور ڈومینین قانون سازی کرتی ہے تو اس پر عمل داری کے اختیارات ریاست کے حکمران کے پاس ہوں گے اور ایسا معاہدہ اس دستاویز کا حصہ سمجھا جائے گا اور اس پر اسی طرح سے عمل ہو گا۔
۵۔ یہ دستاویز ڈومینین مقننہ کو قانون سازی کا کوئی ایسا اختیار نہیں دیتی جس کا مقصد زمین کا لازمی حصول ہو،لیکن میں یہاں یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ڈومینین اپنے لیے زمین کا حصول ضروری سمجھتی ہے تو میں ان کی درخواست پر اور ان کے خرچے پر زمین حاصل کر کے ایک معاہدے کے تحت زمین ان کے حوالے کروںگا۔ اور ایسے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں چیف جسٹس آف پاکستان ایک ثالث کے طور پر فیصلہ کریں گے۔
۶۔ الحاق کی اس دستاویز میں کسی قانون یا قانون آزادی ہند1947 کے تحت بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی تا آنکہ کسی ایسی ترامیمی دستاویز میں میری رضا مندی شامل ہو اور میں ترمیمی/ ضمنی دستاویز پر دستخط کروں۔
۷۔ یہ دستاویز مجھے پاکستان کے مستقبل کے آئین کو تسلیم کرنے کا پابند نہیں کرتی اور نہ ہی مجھے حکومت پاکستان کے مستقبل کے آئین میں کسی بندوبست پر مجبور کر سکتی ہے۔
۸۔ یہ دستاویز ریاست پرمیری آزادانہ و خود مختارانہ حکمرانی یا ریاست کے اندر موجود قوانین کی تسلیم شدہ حیثیت اور ریاست کے اندر تمام اختیارات کے استعمال کو متاثر نہیں کرتی۔
۹۔ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں نے ریاست کی جانب سے اس دستاویز کو نافذ کیا ہے اور اس دستاویز میں مجھ سے یا ریاست کے حاکم سے متعلق کسی بھی حوالے کی تشریح اس طرح کی جائے گی کہ اس میں میرے ورثاءاور جانشین شامل ہیں
میرے دستخط سے27 مارچ 1948 کو تکمیل دی گئی
دستخط
خان آف قلات
میں اس الحاق کی دستاویز کو منظور کرتا ہوں
31 مارچ 1948
دستخط
محمد علی جناح
گورنر جنرل پاکستان
شیڈول
وہ معاملات جن کے حوالے سے ڈومینین پار لیمان اس ریاست کے لیے قانون بنا سکتے ہیں۔
اے ۔دفاعی امور
۱۔ ڈومنین کی برًی،بحری اور ہوائی فوج اور دیگر مسلح قوتیں جسے ڈومینین نے بنایا یا برقرار رکھا ہے۔کوئی بھی مسلح قوت بشمول وہ قوتیں جسے الحاق کرنے والی ریاست نے بنایا اور برقرار رکھا ہوا ہے جو ڈومنین کے ساتھ منسلک اور وابستہ ہیں اور ڈومنین کی کسی بھی فورس کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
۲ ۔ بحری،بری اور فضائیہ کے امور اور کنٹونمنٹ (چھاونی) کے انتظامات
۳۔ اسلحہ،آتشیں اسلحہ۔سامان حرب(فوجی ساز و سامان)
۴۔ دھماکہ خیز مواد
بی ۔بیرونی معاملات(خارجہ امور)
۱۔ دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدوں اور معاہدوںپر عمل درآمد۔مجرموں اور ملزمان کی حوالگی سمیت پاکستان سے باہر ڈومنین کے کچھ حصوں میں ہتھیار ڈالنا۔
۲۔ پاکستان میں داخلے ،ہجرت اور ملک بدری کے معاملات کے علاوہ ان افراد کی پاکستان میں نقل و حرکت کو منضبط کرنا جو پاکستان میں مقیم برطانوی رعایا نہیں ہیں نہ ہی وہ کسی منظور شدہ ریاست کی رعایا ہیں اور وہ جو پاکستان سے باہر مقامات مقدسہ کا سفر کرتے ہیں۔
۳ ۔ شہریت(Naturalisation)
سی مواصلاتی رابطہ یا مواصلات
۱ ۔ ڈاک اور ٹیلی گراف بشمول ٹرنک کال۔وائر لیس براڈ کاسٹنگ اور مواصلات کی دیگر شکلیں۔
۲۔ فیڈرل ریلوے۔تمام ریلوے کے ضابطے،ریلوے کے مسافروں کی حفاظت،کرایوں کے نرخ کا تعین۔اسٹیشن اور ٹرمنل کے سروس چارجز۔ٹریفک کے متبادل (Interchange)راستے۔ سامان کے نقل و حمل اور سہولیت کے لیے ریلوے انتظامیہ کی ذمہ داریوں کا تعین۔اسی طرح چھوٹی ریلوے سروس کے لیے مسافروں اور سامان کی نقل وحمل کے لیے انتظامی ضابطے۔
۳۔ سمندری جہاز رانی اور نیوی گیشن بشمول سمندری پانیوں پر جہاز رانی اور نیوی گیشن اور انتظامی ضابطہ کار۔۔
۔۴۔ بندرگاہ پر قرنطینہ
۔۵۔۔ بڑی بندرگاہیں یعنی ایسی بندرگاہوں کا اعلان اور حد بندی اور ان میں پورٹ اتھاریٹیز کی تشکیل اور اختیارات۔
6۔ ہوائی جہاز اور ہوائی جہاز رانی۔ہوائی اڈوں کی فراہمی۔فضائی ٹریفک اور ہوائی اڈوں کی ریگولیشن اور تنظیم۔
7۔ شپنگ اور ہوائی جہاز کی حفاظت کے لیے لائٹ ہاﺅسز بشمول لائٹ شپ،بیکن اور دیگر انتظامات۔
8۔ سمندر اور ہوائی راستوں سے مسافروں اور ان کے سامان کی نقل و حمل
9۔ کسی بھی یونٹ سے تعلق رکھنے والے پولیس فورس کے ارکان جن کا تعلق ریلوے کے کسی بھی یونٹ سے ہو ان کا ریلوے ایریا اور ریلوے ایریا سے باہر ان کے اختیارات اور دائرہ اختیار کا تعین کرنا۔
ڈی۔ذیلی امور
1۔ ڈومینین آئین ساز اداروں کے انتخابات ایکٹ کی دفعات اور اس کے تحت بنائے گئے احکامات سے مشروط ہوں گے۔
2۔ بیان کئے گئے امور سے انحراف قانون کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔
3۔ بیان کئے گئے امور کے سلسلے میں کسی بھی انکوائری اور شماریات کے حصول کو ممکن بنانا۔
4۔ بیان کئے گئے امور کورٹس کے دائرہ اختیار اور اس کی پاور کے تحت ہیں مگر الحاق سے تشکیل پائی ہوئی ریاستوں کے حکمرانوں کے مرضی و منشا کے بغیر ایسا نہیں ہو گا۔ایسا نہیں ہے کہ عدالتوں کے علاوہ کسی اور عدالت کو اختیارات تفویض کئے جائیں جو اس ریاست کے مروجہ قوانین اور اختیارات کو چیلنج کرتے ہوں۔
دستخط
اے ایس بی شاہ
جوائنٹ سیکریٹری
وزارت امور خارجہ اور تعلقات دولت مشترکہ
مجھے یقین ہے کہ اگر زندگی ساتھ دیتی اور قائداعظم کچھ عرصے اور زندہ رہتے اور پاکستان کا آئین ان کی موجودگی میں تشکیل پاتا تو صوبوں کی خود مختاری کا مسئلہ اسی اصول کے تحت حل ہو جاتا۔ لیکن اُن کی وفات کے بعد ملک کن حادثات سے گذرا اور ہم سامراجی فوجی معاہدوں کی وجہ سے سیکورٹی اسٹیٹ بن گئے۔اور76 سال گذرنے کے بعد بھی ہمارے یہاں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔1973 کے آئین کی تشکیل کے وقت جو وعدے کئے گئے تھے ان پر بھی عمل نہیں ہوا اور چھوٹے صوبے اور خاص کر بلوچستان سراپا احتجاج ہیں۔اور کئی دفعہ وہاں کے لوگوں کو مسلح جدوجہد پر مجبور کیا گیا اور اب بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔
آرمی چیف کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ وہ ہر قسم کی مسلح جدوجہد کو کچل دیں گے۔ہمارے خیال میں سیاسی و معاشی مسائل محض طاقت کی بنیاد پر حل نہیںکئے جا سکتے ہیں بانی ءپاکستان کے سیاسی نظریات اور قانونی معاہدوں کو سامنے رکھتے ہوئے میرے خیال میں جنرل صاحب کو ملک کو درپیش اس اہم مسئلے اور اس کے حل کی طرف پیش رفت پر نوجوان نسل کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہئے تھا اور ناراض لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا کوئی لائحہ عمل د ینا چاہئے تھا۔
اے ۔بی۔ سی پلان کے حوالہ سے پہلے میں ذکر کر رہا تھا۔ سامراجی سازشوں اور تقسیم کی منصوبہ بندی کے حوالے سے مجھے یاد آیا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ہندوستان میں “ہندوستان چھوڑ دو تحریک” چل رہی تھی بعض گروپ اور تنظیمیں انگریز کے خلاف مسلح جدوجہد کی تحریک چلا رہے تھے اس کے بارے میں نیریندر سنگھ سریلا(جو ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے اے ڈی سی) تھے نے اپنی کتاب تقسیم ہند کی انکہی کہانی “The Untold Story of Partition” (جو امریکن اور برطانوی سیکرٹ خط و کتابت و ڈاکومنٹس کی بنیاد پر لکھی گئی جو بعد میں کھلے) میں لکھا ہے کہ1942 میں امریکن صدر فرینکلن روز ویلٹ نے برطانوی وزیر اعظم چرچل کو لکھا کہ آپ اعلان کریں کہ جنگ کے بعد برطانیہ ہندوستان کو آزاد کر دے گا ان کے خیال میں اس اعلان سے ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کے دروازے کھل جائیں گے لیکن چرچل اس کے لیے تیار نہیں تھے وہ سمجھتے تھے کہ ابھی اور کئی سال وہ حکومت کریں گے۔ لیکن اس کے بعد یہ بحث شروع ہوئی کہ اگر برطانیہ نے ہندوستان چھوڑ دیا تو اس خطے میں برطانوی اور امریکی معاشی مفادات کا دفاع کیسے ہو گا کیوں کہ ا دھر سویت یونین سے خطرہ تھا پھر پرشین گلف مشرق وسطی اور بحر ہند میں مفادات تھے لہٰذا یہ تجویز آئی کہ ان علاقوں میں فوجی اڈے قائم کئے جائیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے شمال مغربی سرحد اور کراچی ، بحرہندوغیرہ کی بھی نشان دہی کی گئی لہٰذا اس پر سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات شروع ہوئے تو کانگریس کی قیادت نے تو صاف انکار کر دیا کہ وہ کسی صورت میں کوئی اڈا قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر مسلم لیگ کی قیادت نے اتفاق کر لیا۔
لہٰذا آپ دیکھیں کہ پاکستان بننے کے چند سال کے اندر ہی پاکستان،امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں 1954میں بغداد پیکٹ،1955 میں سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں میں بندھ گیا اور یاد رہے کہ یہ معاہدے صرف سویت یونین اور کمیونسٹ ممالک اورسوشلسٹ تحریکوں کے خلاف تھے،پاکستان کے دفاع کے لیے نہیں تھے۔ کیوں کہ اگر یہ پاکستان کے دفاع کے لیے ہوتے تو پھر کم از کم 1965 اور1971 کی بھارت کے ساتھ جنگوں میں پاکستان کے دفاع میں مدد کرتے۔ ان سامراجی دفاعی معاہدوں اور اپنی معیشت و سیاست کو مغربی ممالک سے نتھی کرنے سے پاکستان کو کیا سیاسی و معاشی مفادات حاصل ہوئے اور پھر ہم نے جو1977-78 اور 1980 کی دھائی سے امریکہ کے اتحادی کے طور پر افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جو مذہبی جہادی پالیسی اختیار کی،اس کے پاکستان کی معیشت و سیاست اور پورے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوے وہ آئندہ کی پالیسیاں مرتب کرنے کے لیے نوجوان نسل کے سامنے بیان کرنے کی ضرورت تھی اور ہے۔ تاکہ وہ نئے ویژن کے ساتھ مستقبل کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کر سکیں مگر اس پر جنرل صاحب نے ایک لفظ نہیں کہا۔انھوں نے برطانیہ پر اپنی برتری ثابت کر نے کے لیے خواتین کے ووٹ کے حق کی بات کی اس پر بھی ان کے مطالعہ کے لیے عرض کروں کہ برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق ساٹھ کے عشرے میں نہیں بلکہ 1918 میں The Parliament(Qualification) of Women Act 1918 کے تحت حاصل ہوا اور ہندوستان میں برطانیہ نے Govt of India Act 1919 اور1921 کے قوانین کے تحت پہلے محدود حق دیا جو صرف خاص آمدنی رکھنے والی خواتین کو حاصل تھا اور بعد میںGOVT of India Act 1935 کے تحت خواتین کو مکمل ووٹ کا حق حاصل ہوا۔
جہاں تک پاکستان اور ریاست مدینہ یا ریاست یثرب ہجرت کے حوالے سے مماثلت کا تعلق ہے اُن میں کوئی بھی مماثلت نہیں ہے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا تو مسلمانوں کو علم ہے مگربرصغیر میں پہلی ہجرت جون 1922 میں شروع ہوئی وہ دراصل برطانیہ سے آزادی کے لیے تھی جو غیر منظم اورناقص حکمت عملی اور صرف جذباتیت میں اُٹھائے ہوئے قدم کے سبب ناکام ہوئی اور مسلمان سخت عذاب میں مبتلا ہوئے۔
چلیے کچھ ذکر ہم اس ہجرت کا کرتے چلیں یہ ہجرت جون 1920 سے شروع ہوئی پہلی جنگ عظیم 1918میں ختم ہوئی تو امریکہ،مشرق وسطی اور یورپ میں پھیلی ہوئی ترکی کی عظیم سلطنت بھی خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں سے نکل کر انگریزوں،فرانسیسیوں اور دوسری یورپی طاقتوں کے قبضے میں چلی گئی ہندوستان کے مسلمان رہنماوں نے خلافت تحریک شروع کی کیوں کہ یہ تحریک بنیادی طور پر انگریزوں کے خلاف تھی مہاتما گاندھی اور کانگرس نے بھی اس کی حمایت شروع کر دی لیکن قائداعظم اور مسلم لیگ نے حمایت نہیں کی تھی۔ہندوستان میں مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف غصہ شدید تھا اور اُدھر افغانستان میں امان اﷲ بادشاہ مسلمان تھا چنانچہ علماءنے اپنی جوشیلی تقریروں میں اور اپنے فتوی سے یہ کہنا شروع کیا کہ ہندوستان دارلحرب ہے جہاں انگریزوں کی حکمرانی ہے لہٰذا ہمیں افغانستان جو دارالسلام ہے وہاں ہجرت کر جانی چاہئے۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں جا کر افغان حکمرانوں کی مدد سے انگریزوں کے خلاف جہاد کر نا چاہئے یہ ہجرت کی تحریک قطعاً ہندﺅں کے خلاف نہیں تھی یہ کوئی با قاعدہ منظم اور کسی ایک قیادت کے تحت بھی نہیں تھی۔ چنانچہ ہندوستان کے کھاتے پیتے مڈل کلاس کے مسلمانوں نے جذبہ جہاد میں آ کر اپنی جائدادیں،گھر اور سامان بیچ کر ہجرت شروع کر دی اور جب یہ مہاجرین افغانستان پہنچے تو ان کے ساتھ کیا حشر ہوا وہ تاریخ گواہ ہے یہ سلسلہ جون 1920 سے لے کر ستمبر 1920تک چلتا رہا اور پھر کس طرح ان مہاجرین کو لوٹا گیا اور افغانوں اور تر کمان باسمچیوں کے ہاتھوں اُن کا قتل عام ہوا ۱ور جو چند ایک بچے اُنھیں سویت یونین کی سرخ فوج نے پناہ دی یہ تاریخ گواہ ہے۔ہجرت کرنے والے مسلمان تو مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوئے مگر باقی ماندہ ہندوستان میں مسلمانوں پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ایک تو ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا تعلق خوش حال درمیانے طبقے سے تھا جو ہجرت کر گیا باقی رہ جانے والے مسلمان مزید تعلیمی،معاشی و سماجی پسماندگی کا شکار ہوئے۔
بر صغیر کی دوسری ہجرت تو تقسیم کے نتیجے میں تھی جو بٹوارے کا نتیجہ تھا اور شاید مسلم لیگ کی قیادت اس کی شدت اور اثرات کو سمجھ نہیں پائی تھی۔ سرسری جائزے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ برصغیر کی ان دونوں ہجرتوں کی مدینہ کی ہجرت سے کوئی مماثلت نہیں ہے۔لیکن چونکہ یہ بات پاکستان کی طاقتور ترین شخصیت نے کہی ہے تو اس کا تجزیہ سلیم صافی، حامد میر، سہیل وڑائچ اور مظہر عباس جیسی شخصیتوں نے بھی نہیں کیا۔لیکن میرا خیال ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل ان حقائق پر ضرور غور کرے گی۔
اس کے بعد جنرل صاحب نے فرمایا کہ، ”ریاست طیبہ کا مطلب پاک ریاست ہے اور پاکستان کا مطلب بھی پاک لوگوں کا مسکن ہے۔ﷲ پاک نے سعودی عرب کو تیل کی صورت میں قدرتی وسیلے سے نوازا ہے تو پاکستان پر بھی بے تحاشہ نوازشات کی ہیں۔ ،گلیشر،دریا اور بلوچستان میں معدنی ذخائر وغیرہ ہم اگر فائدہ نہیں اُٹھا سکے تو ہمارا قصور ہے ہم نے مغربی کلچر کو اپنا لیا۔۔۔ دراصل ہم بڑے نا شکرے واقع ہوئے ہیں“۔
جنرل صاحب آپ نے یہ تو فرمایا کہ ریاست طیبہ کا مطلب پاک ریاست ہے اور مسلمانوں میں سعودی عربیہ پاک اس لیے ہے کہ یہاں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ہے اور یہ پیغمبروں کی سر زمین ہے مگر وہاںجو خلق خدا رہتی ہے اس کے بارے میں بھی فرمایا ہوتا کہ شیخ اور بدو میں اب بھی فرق کیوں ہے۔بادشاہت کیوں قائم ہے کیا یہ بادشاہت کا نظام اسلامی ہے؟ اور پھر کیا پورے خطہ عرب میںSheikhdoms and kingdom فلسطینیوں اور سرزمین فلسطین کی محافظ ہیں یا امریکہ اور مغربی سامراجی مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں آج تو صرف غزہ میں چھ ماہ میں34,000 سے زیادہ فلسطینیوں کا اسرائیل نے قتل عام کیا ہے 70,000 سے زیادہ زخمی ہیں،گھر, اسپتال اور اسکول تباہ ہیں جو زندہ ہیں وہ زندہ رہنے کے قابل نہیں۔
نوجوان نسل کے سامنے ان تضادات کا ذکر ضروری تھا۔پاکستان کے بارے میں تو آپ نے کہہ دیا کہ یہ پاک لوگوں کا مسکن ہے لیکن ذرا ان پاک لوگوں کی 76 سالہ تاریخ کا بھی جائزہ لیجئے۔یہاں پر بسنے والی اقلیتوں کا تو ذکر چھوڑ دیں یہاں ایک مسلما ن دوسرے کو کافر کیوں کہتا ہے؟
اگر یہ مذہبی فرقہ پرستی،انتہا پسندی اور جہالت ہے تو کیوں ہے؟
اگر یہ ہمارے حکمرانوں کی تعلیمی، معاشی و سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟
کیا یہ پالیسیاں اب بھی جاری ہیں یا کیا ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
اگر ہے تو کیا اس کی نشاندہی نوجوان نسل کے سامنے ضروری نہیں تا کہ پاک سرزمین کی تعمیر کی طرف پیش قدمی کی جا سکے۔
جہاں تک ترقی کا مسئلہ ہے سعودی عرب نے تو تیل کی دولت کا استعمال کیا اور ترقی بھی کی خواہ اس کی تیل کی دولت کی بنیاد پر مغربی سامراجی ملکوں نے کئی گنا زیادہ ترقی کی اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت اور سیاست پر اپنے پنجے اور مضبوط کئے۔ پاکستان نے گونا گوں وسائل یعنی گلیشر،دریا ،نہریں، زرعی زمین ،بے شمار معدنی وسائل ہونے کے باوجود ترقی کیوں نہیںکی؟
ہمارا ملک قرض، سامراجی غلامی، بے روزگاری، غربت، افلاس، جہالت، تعلیمی پسماندگی اور انتہا پسندی کے اندھیرے میں کیوں ڈوبا ہوا ہے؟
دنیا کے غریب ترین اور مقروض ملکوں کی صف میں سب سے نیچے کیوں ہے؟
جمہوری ادارے کمزور کیوں ہیں؟
کیا نوجوان نسل کے سامنے اس معاشی و سماجی بد حالی اور جمہوری اداروں کی کمزوری کی وجوہات اوراس سے نکلنے کے لیے آئندہ کی پالیسی بیان کرنا ضروری نہیں ہے؟
پہلے زراعت کا ہی ذکر کریں،یہ ملک بنیادی طور پر زرعی ملک کہلاتا ہے۔56 فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے۔مگر زمین کی بڑی ملکیت اٹھارویں اور انیسیویں صدی میں انگریز نے جو جاگیردار اشرافیہ قائم کی تھی، اس کے پاس ہے۔آج بھی جاگیری اور بڑی زمین داری کی باقیات موجود ہیں۔46 فیصد زرعی آبادی زمین کے حق سے محروم ہے دو کروڑ کسان زمین سے محروم ہیں۔تھانہ ،کچہری و تحصیل پر ان بڑے زمین داروں کی حاکمیت ہیں۔ اس لیے پارلیمنٹ اور سیاسی اقتدار پر انہی کی طبقاتی بالادستی ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد جوں جوں فوجی نوکر شاہی کی بالا دستی قائم ہوئی انہوں نے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کو بھی زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ شروع کر دی۔ان افسران کا زراعت سے کوئی تعلق نہ تھا انھوں نے اس زرعی زمین کو ٹھیکوں پر دے کر گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمائے اور زمین دارانہ نظام کے محافظ بن گئے۔
زرعی اصلاحات کی تاریخ طویل ہے۔اس میں جائے بغیر میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زرعی اصلاحات اور زمین کی بے زمین کسانوں، ہاریوں اور کھیت مزدوروں میں تقسیم تو ایک طرف ہمارے حکمرانوں کی کوئی زرعی پالیسی ہی نہیں رہی کہ کون سی فصل کن علاقوں میں کاشت کرنی ہے؟ مارکیٹ کا تعین کیسے ہو گا؟
شمالی پنجاب اور دیگر صوبوں کے بڑ ے حصے میں زمین کی ملکیت چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم ہے اس کی اشتمالی اراضی (consolidation of land) تک نہیں کی گئی جو ضروری تھا تا کہ زرعی پیداوار اور چھوٹے ملکیت داروں کی آمدنی میں اضافہ ہو،سرکاری زمین پر اجتماعی کاشتکاری یا کوآپریٹیو فارمنگ شروع کرنے کی بجائے کارپوریٹ فارمنگ ایکٹ لایا گیا۔ نوے لاکھ ایکڑ زمین فوج کو الاٹ کر دی گئی، وہ آگے ٹھیکے پر غیر ملکی اور ملکی کمپنیوںکو دیں گے۔ اب ان کروڑوں بے زمین کسانوں،ہاریوں،کھیت مزدوروں اور زراعت سے متعلق لوگوں کا کیا ہوگا۔ ان میں سے کچھ کا کھیت مزدوروں کے طور استحصال جاری رہے گا۔ آج ہم زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی زرعی اجناس درآمد کرنے پر مجبور کیوں ہیں؟ صنعتی پسماندگی،بنیادی صنعتیں قائم نہ کرنے اور جو اسٹیل مل کس طرح قائم ہوئیں اُن کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟
گیس، تیل، سونے، تانبے،سیلیکون وغیرہ کی انتہائی قیمتی معدنیات کے ذخائر ہونے کے باوجود ہم اُن سے محروم کیوں ہیں؟ بین القوامی سامراجی ممالک کی بالادستی کیوں قائم ہے ؟اور عالمی بینک و عالمی مالیاتی فنڈ کی کی غلامی کیوں ہے؟ ان پالیسیوں کا تعلق بھی نوجوان نسل سے گہرا ہے اور ان تمام نا کامیوں کا ان کے سامنے بیان کرنا ضروری ہے۔
بصد احترام سب اچھاکہنے سے اچھا نہیں ہوگا۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دبانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کہتے ہیں تھوڑی سی سختی سے لوگ چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ جناب یہ تھوڑی سی سختی نہیں ہے۔ لوگ اپنی زندگی کے حق سے محروم ہیں۔کیونکہ زندگی کا حق تعلیم، روزگار، صحت، علاج معالجے اور رہنے کے لیے چھت کے بغیر بے معنی ہے۔ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہئے کہ جب لوگوں کی چیخیں نہ سنی گئیں تو پھر وہ گلے پڑیں گے اور خون خرابہ ہو گا اور آج کی نسل کو اس سے گذرنا پڑے گا۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ ہمارے سماج کے ان مسائل پر بھی روشنی ڈالتے۔
جنرل صاحب آپ نے بالکل ٹھیک فرمایاکہ آپ دو بڑی انٹیلجنس اداروں کے سربراہ رہے ہیں اور سیاست سے اچھی طرح واقف ہیں۔لیکن آپ نے فرمایا کہ ”ہماری سیاست یا ادارے ہماری سوسائٹی کے عکاس ہیں، اگر سوسائٹی سو فیصد فرشتوں پر مشتمل ہوتی اور پھر ہماری حکومتیں خراب ہوتیں تو ہم گلہ کر سکتے تھے۔ لیکن سوسائٹی اپنے آپ کو بہتر کرنے کے بجائے یہ توقع کرتی ہے کہ اسے اچھی حکومت اور ادارے ملیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔یہ تقسیم اﷲ کی ہے ۔۔۔ اور ذہنی انتشار اور اشتعال سوشل میڈیا کا پیدا کردہ ہے۔اس لیے میں اس سوشل میڈیا کو شیطانی میڈیا کہتا ہوں۔۔۔ سوشل میڈیا پر 95 فیصد جھوٹ ہوتا ہے۔۔۔نوجوان تحقیق کرے“۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ہمارے ملک کی سیاست کے متعلق سب سے زیادہ جانتے ہیں۔کیوں کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ تاثر قائم ہے کہ حکمران طبقات کی بندر بانٹ کی سیاست میں آپ کی مینجمنٹ لازمی ہے۔ لیکن آپ کا یہ فلسفہ کہ ہماری سیاست یا ادارے ہماری سوسائٹی کے عکاس ہیں اور اگر سوسائٹی یعنی پورے عوام سو فیصد فرشتے بن جاتے تو حکومت بھی اچھی ہوتی۔ یعنی اگر عوام خراب ہیں تو حکومت اچھی نہیں ہو سکتی۔ یعنی غلطی عوام ہی کی ہے۔ قیادت بے قصور ہے۔حضور معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ایسا ہوتا تو پیغمبر دنیا میں نہیں آتے۔ پیغمبر اسلام نے عرب کے جاہل معاشرے کو اپنی رہنمائی سے درست کیا تھا۔ وہ پہلے امین اور صادق تھے تو لوگوں نے ان کی پیغمبری کو بھی تسلیم کر لیا تھا۔
پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ قیادت نے معاشرے یا سوسائٹی کو اپنی رہنمائی سے درست کیا ہے یا اس کی برائی سے کھائی اور اندھیرے کی طرف گیا ہے۔ ہمارے رہنما اپنے کردار کے تاریک پہلوﺅں کو چھپانے کے لیے کہتے ہیں کہ جیسی قوم ویسے حکمراں۔ یعنی قوم خراب ہے اس لیے رہنماء یا قائدین خراب ہیں۔ جناب معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ اگر کسی قوم کو قائد اچھامل گیا تو اس کی رہنمائی اور اس کے کردار کی پیروی کرتے ہوئے پوری قوم سُرخرو ہوئی۔ قائد اعظم کی قیادت نے مسلم لیگ اور بر صغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کی اور پاکستان وجود میں آیا۔ اب پاکستان کی تعمیر میں ان کے فلسفے اور آئین ساز اسمبلی میں صدر منتخب ہونے پر 11 اگست1947 کی ان کی دور اندیش اور زرین خیالات و نظریات پر مبنی تقریر جس میں انھوں نے ماضی کے تجربات کی روشنی میں کہا کہ ”خواہ ہندوستان میں مذہبی نفرتیں ہوں یا انگلینڈ میں عیسائیوں کی فرقہ بندیاں اور قتل و غارت گری، مذہبی فرقہ بندیوں اور نفرت کی کلہاڑی کو دفن کئے بغیر ترقی ممکن نہیں”۔
پھر انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ مذہب کا ریاستی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، مگر اُن کے ان سیکولر/دنیاویت پسندی پر مبنی نظریات سے روگردانی پر بعد کے حکمران ہمیں پسماندگی، اندھیروں اور فرقہ واریت کی طرف لے گئے۔ آج ہم جس فرقہ واریت، تقسیم ،معاشی و سماجی بحران کا شکار ہیں وہ سیاسی قیادت کی وجہ سے ہے نہ کہ عوام کی وجہ سے، اس سیاسی قیادت میں تیس بتیس سال سے زیادہ فوجی قیادت کا بھی دخل ہے۔ یہ سیاسی و فوجی قیادت کے فیصلے اور پالیسیاں تھیں جن کی وجہ سے اکثریتی آبادی والا پاکستان کا حصہ مشرقی بنگال، ہم سے الگ ہو کر آزاد ہو گیا۔ غربت کا شکار مشرقی پاکستان آج بنگلہ دیش کی صورت ہم سے معاشی و سیاسی ترقی میںکہیں آگے ہے۔یہ کریڈٹ ان کی قیادت کو جاتا ہے۔
لہٰذا پاکستانی سماج کی ترقی کے لیے ایک ایسی قیادت اور سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو اس کثیرالقوامی ریاست کے حقائق کو نہ صرف تسلیم کرے بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے حقیقی وفاقی پارلیمانی ریاست کو مضبوط کرے جہاں وفاقی اکائیوں کو اپنے معاشی وسائل سے محرومی کا احساس نہ ہو۔ ایسی سیاسی قیادت جو فرقہ واریت کے اندھیروں سے نکال کر ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی برابری کی بنیاد پر حقوق کو تسلیم کرے ایسی قیادت جو بنیادی معاشی پالیسیاں پورے محنت کار عوام کے نقطہ نظر سے تشکیل دے؛ سامراجی معاشی و سیاسی چنگل سے آزاد کرے، اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرے، قرض سے نجات دلائے، ہر شہری کی گریجویشن تک تعلیم کومفت اور لازمی قرار دے، صحت علاج معالجے اور رہنے کی چھت مہیا کرے۔اس سے نئے سماج کی تعمیر ہوگی، نیا باشعور انسان جنم لے گا اور ترقی کرے گا۔ یہ سب سیاسی قیادت کا کام ہے۔ جیسی قیادت ہوگی اور اس کی سیاسی جماعت ہوگی ان پالیسیوں اور عملی زندگی سے اس طرح کی سوسائٹی پروان چڑھے گی۔ جنرل صاحب عرض ہے کہ اﷲ نے سب کو برابر پیدا کیا ہے۔یہ غریب امیر اور اچھے برے کی تقسیم انسانوں کی پیدا کردہ ہیں۔
جہاںتک میڈیا کے شیطانی ہونے کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ ہمارے علماء نے تو جب لاﺅڈاسپیکر آیا تھا تو اس کے خلاف بھی فتوے دیے تھے کہ یہ شیطانی چرخا ہے۔کیمرے کی تصویر اور گھڑی کو بھی بدعت قرار دیا تھا، چاند پر جانے پر بھی کفر کے فتوے دیئے۔مجھے یاد آیا کہ چیف جسٹس محمد افضل ظلہ کے زمانے میں مولویوں نے ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں دآیر کی کہ فوٹو حرام ہے اور فوٹوکھنچوانے سے منع کیا جائے۔ کئی دن بحث ہوتی رہی تو ایک دن جناب عابد حسن منٹو ایڈوکیٹ اپنے مقدمے کے سلسلے میں ظلہ صاحب کی عدالت میں داخل ہوئے۔ کاروائی روک کر چیف جسٹس نے اُنھیں دیکھ کر کہا کہ آپ ہما رے سینئر ایڈوکیٹ ہیں ہماری اس سلسلے میںمعاونت کریں، تو منٹو صاحب نے کہا کہ اس سے پہلے کہ میں کچھ عرض کروں پہلے آپ اپنے اوپر دیوار پر قائد اعظم کی لگی ہوئی تصویر اتار دیں، اس کے بعد آپ ججز اور تمام علماء اپنے اپنے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ سرینڈر کر دیںِ پھر میں بات کروں گا۔ اس پر فورا کاروائی ملتوی ہو گئی۔
جناب سوشل میڈیا بھی آج کی حقیقت ہے۔ عوام اور بالخصوص نوجوانوں جن سے آپ مخاطب تھے، کی سوشل میڈیا تک رسائی کو نہیں روک سکتے۔ہاں اس کے مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ ریاست اس کو کس طرح کنٹرول کر سکتی ہے یہ بھی قیادت کی طرف سے لوگوں کی تربیت پر منحصر ہے کہ وہ اس کا استعمال کس طرح سے کریں صحیح اور غلط، اچھے اور بُرے،سچ اور جھوٹ کی تحقیق کس طرح سے کریں،ملکی قیادت اپنی معاشی،سیاسی و سماجی اور تعلیمی پالیسیوں سے ہی ذہن کی صفایی پیدا کر سکتی ہے۔
جناب نوجوانوں کو اگرچہ سوالات کا بہت کم موقع ملا مگر پھر بھی دو تین سوالات بڑےاہم اور بروقت تھے، یعنی اچھی حکمرانی کو مسئلہ جس کے بارے میں اوپر عرض کر چکا ہوں اور پھر تعلیم اور صحت کا مسئلہ اور یہ کہ ہر شہر می سی ایم ایچ قائم کیا جائے۔ سی ایم ایچ کو بنانے کے مطالبے کا بنانے سے کوئی تقابل نہیں۔ سی ایم ایچ یعنی ہسپتال تو تمام شہریوں کے لیے بنیادی انسانی ضرورتوں میں آتا ہے۔ مگر ڈی ایچ اے کا قیام تو کاروباری ہے، جو کہ عام شہریوں کے لیے نہیں ہے۔یعنی ہر بڑے شہر میں جہاں کنٹونمنٹ قائم ہے وہاں شہر کی بہترین زمین صوبائی حکومتوں سے لے کر پہلے فوج کے افسران کو پلاٹ کوڑیوں کے دام ا لاٹ کئے جاتے ہیں اور پھر اس کی خرید و فروخت کا کاروبار ہوتا ہے۔اب شہروں کے قریب زرعی زمینوں کو حاصل کیا جا رہا ہے جیسے ڈی ایچ اے ملتان جو بہترین زرعی زمین تھی آم کے باغات تھے۔ ہزاروں آم کے درخت کٹوا دیئے گئے ہیں اور ایک خاص طبقے کا انتہائی منافع بخش کاروبار جاری ہے، کراچی، لاہور، اور دیگر شہروں میں بھی یہی ہو رہا ہے۔
شہروں میں غریبوں کی کچی بستیوں کو کیوں مسمار کیا جاتا ہے۔ان کے جھو نپڑے اور کچے مکان تو زندہ رہنے کے لیے چھت کا حق ہے۔
جنرل صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ”ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے کبھی اچھی حالت میں ہوگی اور کبھی بری حالت میں اگر ماں بیمار ہو تو کیا اُسے چھوڑ دیں گے“ ۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے ہم نے فلسفہ میں یہ بھی پڑھا ہے کہ ریاست جبر کی مشین ہوتی ہے۔ یہ دونوں پہلو ہیں۔ ماں کا کردار اپنے بچوں/عوام کو اچھی زندگی دینا ہے۔تعلیم، روزگار، صحت، اور رہنے کی چھت، جو انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر 76 سالوں میں ماں یہ دینے سے قاصر ہے اور بچوں کے معصومانہ تقاضوں پر سرزنش کرتی ہے اور تادیبی کاروائیاں کرتی ہے تو شکایت تو ضرور پیدا ہوگی اور جبر کی صورت میں بغاوت بھی جنم لے سکتی ہے، ماں کوچھوڑنے کی نہیں، لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ماں/کمزور اور بیمار کیوں ہے؟ کیا اس کے ذمہ دار عوام ہیں یا حکمران ہیں؟ جن کے ہاتھ میں ریاست کی باگ ڈور ہے؟ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل سات کے تحت ریاست کی تعریف ہے کہ”ریاست پارلیمنٹ، وفاقی حکومت، صوبائی اسمبلیاں، صوبائی حکومت اور وہ ادارے جو ٹیکس عائد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں پر مشتمل ہے”۔
تو ان مسایل کے ذمہ دار پارلیمنٹ میں بیٹھے حکمران ہیں، نہ کہ عوام۔ ریاست کی کمزوری اور بیماری کے ذمہ دار وہ ہیں جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں اور تعمیر کی ذمہ داری بھی۔ اسی لیے میں نے کہا ہے کہ اگر حکمران اور قیادت اچھی ہوگی تو عوام کی تربیت بھی اُن کو دیکھتے ہوئے بہتر ہوگی اور اگر وہ خودغرض، بددیانت اور کرپٹ ہوں گے تو عوام میں بھی خودغرضی ومایوسی پھیلے گی اور نتیجتاً نفرت اور بغاوت جنم لے گی۔لہٰذا ریاست/ ماںکی کمزوری و بیماری کا دوش عوام پر نہیں ڈال سکتے۔
مقصد یہ ہے کہ یہ ہر شخص کے دیکھنے کی نظر مختلیف ہے کہ وہ کس نظر سے د یکھتا ہے۔ عام غریب، محنت کش کی نظر سے یا مراعات یافتہ طبقے کی نظر سے۔ حکمران اپنی معاشی و سماجی پالیسیاں کس نقطہ نظر سے بناتے ہیں۔ اسے آج کے نوجوانوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔امید ہے آپ اور دیگر دانشور صحافی بھی آئندہ اس پر روشنی ڈالیں گے۔
اختر حسین عوامی ورکرز پارٹی کے صدر، اور سپریم کورٹ کے سینٗر ایڈووکیٹ ہیں