عوامی ورکرز پارٹی تحر یکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری لڑائی کو پنجاب کےاشرافیہ گروہوں اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان تضاد اورریاستی اقتدار کے لئےاندرونی کشمکش سمجھتی ہے، جس سے نظام بار بار معطل ہو رہا ہے اور عوامی اور جمہوری مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس لڑائی کو ہم سول اور ملٹری قوتوں کے درمیان تاریخی طور پر جاری ریاستی اقتدار کے لئے کشمکش سے متعلقہ ایک ذیلی لڑائی بھی سمجھتے ہیں، جو مختلف شکلوں میں بار با رہمارے سامنے آتی رہی ہے، جسکا نقصان ہمیشہ غریب عوام نے برداشت کیا ہے، او تب تک برداشت کرے گی جب تک ریاست پر فوج کی بالادستی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اور فوج کو پارلیمان کے ماتحت نہیں لایا جاتا ۔ ٹیکس چوری کے بہانے، ایک بار پھر یہ لڑائی لڑی جا ری ہے۔ اِس نکتہ نظر سے ہماری مراد ہر گزٹیکس چوری اور چوروں کا دفاع کرنا نہیں ہے۔ ہم ہر طرح کے ٹیکس چوری کی مزمت کرتے ہیں اور ہم پاکستان میں مروجہ غیر منصفانہ ٹیکس لگانے، اکھٹا کرنے اور خرچانے کے نظام کو بھی ردکرتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ، ٹیکس و ٹیکس چوری، کرپشن اور کِک بیکس سرمایہ داری نظام کی معاشی اساس ہیں او پاکستان کے سیاستدان، فوج، عدلیہ ، بشمول میڈیا یعنی ریاست اور سماج کا ایک بڑا حصہ تاریخی طور پر اسمیں ملوث رہاہے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آف شور کمپنیاں اور سوئس بنکس کا نظام عوامی دولت کے چوری کا وہ رستہ ہے، جو سرمایہ داری نظام اور سرمایہ دار ممالک نے خود ہی اپنے بقاء اور تسلسل کے لئے تراشہ ہے۔ ہم پانامہ لیکس میں شامل پاکستان کے ٹیکس چور سیاستدان (جس میں خود PTI کے لیڈربھی شامل ہیں) اور بیورو کریٹس ، اور باہاماس لیکس میں شامل پاکستان کے کارخانہ داروں کے 150 آف شور کمپنیوں کے زریعے ٹیکس چوری کو سرمایہ داری نظام کا مسئلہ سمجھتے ہیں جو صِرف نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کے زریعے حل نہیں ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام کے اندر یہ مسئلہ بلاواسطہ ٹیکس (indirect tax) کو حد درجہ کم کرکے اور اور بلواسطہ ٹیکس (direct tax) کا نظام مروج کرنے اور ٹیکس وصولی کا نظام موثر اور شفاف بنانے سے کسی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تحریک انصاف اِن معاملات کو اپنی سیاست کا حصہ بنانے اور پارلیمان میں قانون سازی کے بجائے، صرف اپنی ” باری” چاہتی ہے، جو وہ پارلیمان پر حملہ کر کے لینا چاہتی ہے۔ مزید یہ کہ جن سیاسی اور مذہبی گروہوں اور نظریاتی حواریوں کے ساتھ مل کر تحریک انصاف یہ محاصره کرنے جا رہی ہے، یہ تحریکِ انصاف کے نظریاتی بنیاد اور سیاست کو بے نقاب کرتی ہے، اور یہ سب مذہبی بنیاد پرست، قدامت پرست ، مذہبی عسکریت پسند اور روشن خیالی کے دشمن گروہ ہیں۔ ہم ایسی سیاسی قوتوں اورایسے سیاسی اقدام کا نه تو کبھی حصہ ہو سکتے ہیں اور نه ہی اسکی حمایت کر سکتے ہیں۔ اوراِس محاصرے کے نتیجے میں پارلیمانی نظام کوکسی بھی طرح کے نقصان کی ذمہ دارعین تحریک انصاف ہی هو گی۔ تحریکِ انصاف کی سیاست ایک بلبلے کی طرح ہے جو اندر سے خالی ہے، اور اگر اُسے سماجی انصاف کا کوئی بھی حقیقی سوال چھو جائے، تو وہ پھٹ جاتا ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مسلم لیگ اور مرکزی دھارے (mainstream ) کی دوسری پارٹیاں تحریکِ انصاف سے مختلف ہیں، یا” تبدیلی” کا دھوکا دینے والی تحریکِ انصاف کی سیاست اُن سے کوئی مختلف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومی جبر، مزدور اور کسان کا استحصال، عورت پر جبر، سامراجی غلبہ، زرعی اصلاحات، دہشت گردی ، مذہبی انتہا پسندی، اور یا عوامی مسائل اورغربت سے متعلقہ سوالات کا انکے پاس نه تو کوئی جواب ہے اورنه ہی کوئی ایجنڈا و منشور،نه ہی کوئی تحریک، اور نا هی اپنی هی حکومت کی طرف سی کوئ پالیسی اور قانون ۔ اُلٹا تحریکِ انصاف کے وائس چئرمین شاہ محمود قریشی جاگیرداروں کی نمائندگی کرتے هوئے سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت عوامی ورکرز پارٹی کی طرف سے دائر کردہ زرعی اصلاحات کی بحالی کے کیس میں مخالف فریق بنے اور جاگیرداری نظام کا دفاع کر رہے ہیں، وہ نظام جو کہ ہمارے خطے میں جبرو استحصال اور تشدد کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کی طبقاتی ساخت ، قومی،اقتصادی، مذہبی اور صنفی ساخت اور بنیادوں کو چیلنج کئے بغیر نظام کو ان بحرانون سے نکالنا ممکن نہیں ہے۔ چوری چکاری اور استحصال پر مبنی سرمایہ داری نظام کا متبادل تعمیر کرنے کے لئے ہم پاکستان کے بائیں بازو اور انسان دوست قوتوں کے ساتھ ملکر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اختر حسین جنرل سکریٹری عوامی ورکرز پارٹی