سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کیے بغیر عوام کو حقیقی آزادی نہیں مل سکتی، مقررین


پریس ریلیز


ٹوبہ ٹیک سنگھ: سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر نہ آزادی  مل سکتی ہے اور نہ ہی  محنت کشوں اور محنت کار عوام کی زندگی میں بہتری آسکتی ہے۔ گذشتہ 75 برس سے استحصالی طبقوں  اور اسٹیبلشمنٹ عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ موجودہ  حکمران اشرافیہ  کی  جماعتیں، عدلیہ اور اسٹبلشمینٹ مل کر  اس  لوٹ کھسوٹ ،  استحصال  اور  قومی و صنفی جبر کے نظام کو بچانے اور سامراجی  مفادات کی تکمیل  کرتے ہیں  اور اقتدار سے باہر آ کر عوامی حقوق کے جھوٹے دعوے کرتی ہیں۔

ان خیالات کا اظہار عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر اختر حسین ایڈووکیٹ، مرکزی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر بخشل تھلہو اور دیگر مقررین نے  گزشتہ دنوں ٹوبہ ٹیک سنگھ، شیخوپورہ  میں پارٹی کے ضلعی کنونشن  اور  اور فیصل آباد میں کارکنوں سے خطاب کے دوران کیا۔

کنونشن سے  عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کی جنرل سیکرٹری عابدہ چوہدری ایڈوکیٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ  کے ضلعی صدر اور کسان رہنما چوہدری محمد زبیر، لاہور  پارٹی کے صدر زاہد پرویز ایڈووکیٹ، فیڈرل کمیٹی کے رکن رانا محمد اعظم  ایڈووکیٹ، پاور لومز  مزدور یونین کے ضلعی صدر کرم الہی دیوان، پارٹی کے ضلعی نائب صدر اور کسان رہنما چوہدری نعیم فتح، عبدالرحمان، مہر رب نواز دادو نے بھی خطاب کیا۔

مقررین نے حکمران اشرافیہ طبقہ  ، عدلیہ اور اسٹبلشمینٹ کو موجودہ  معاشی  بحران، سیاسی اافرا تفری،کسانوں کی زمینوں پر قبضہ گیری ، بے دخلی  اور ماحولیاتی تباہی  کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔ انہوں نے  حکمران طبقوں کی عوام دشمن پالیسیوں اور منافقت  اور ملک کو  تباہی کے دہانے تک پہنچانے پر تشویش کا اظیار کیا۔ انہوں نے ملک میں ہر طرح کے استحصال کے خاتمے اور وسائل کی منصفانہ بنیادوں پر ازسرِ نو تقسیم کا مطالبہ کیا۔

 اختر حسین نے کہا کہ پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956ء کو نافذکیا گیا، لیکن بدقسمتی سے ملک پر سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ قابض رہی اور آئین کو بار بار توڑا گیا اور عوام کےآینی ، معاشی  اور جمہوری حقوق پامال کئے گئے۔آئین سے روُگردانی  اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے  اور عالمہ سامراجی مالیاتی اداروں سے مسلسل قرضوں کے بوجھ میں اضافہ سے عوام  معاشی بد حالی ، بے روزگاری، اور غربت کے شکار ہیں  نہ   تو عوام کو تعلیم  میسر ہے  نہ صحت کی جدید سہولتیں  میسر ہیں؛  نوجوان روزگار کے حصول کے لیے در بدر پھرتے ہیں۔ تییس  کروڑ عوام ان  حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں۔

عدلیہ  عوام کے بنیادی حقوق کو تحفض دینے اور انصاف مہیا کرنے میں ناکام ہے۔ اننہوں نے کہا کہ گزشتہ ۱۲ سالوں نے پارٹی کے بانی صدر عابد حسن منٹو صاحب نے زرعی اصلاحات کے قانون کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ میں  ایک پیٹیشن داٗر کیا تھا  جس کی آج تک شنواٗی نہیں ہوٗیی ۔

اسلیے ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کش عوام  اور کسانوں کو نہ موجودہ فرسودہ نظام میں انصاف مل سکتا ہے اور نہ ہی عدالتوں سے بلکہ عملی جدوجہد سے ہی حقوق حاصل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کسانوں اور مزدور تنظیموں پر زور دیا کہ وہ اپنے تاریخی کردار کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے طبقے کی سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔

 بخشل تھلہو  نے اس بات پر زور دیا کہ  موجودہ حالات سے نکلنے کا واحد راستہ  جدوجہد  اور متبادل سوشلسٹ   نظام  کا قیام ہے  جس کے لیے ترقی پسند قوتوں مظوم قوموں   کو متحد ہو نا ہوگا اور ایک ایسی مشترکہ سیاسی پروگرام  تشکیل دیں جس کے ذریعے  ۲۳کروڑ عوام  کو موجودہ فرسودہ نوآبادیاتی سامراجی غلامی سے نجات  ملے اور ان کی  خوشحالی، سماجی اور معاشی ترقی کو  ممکن بنایا جائے۔

مقررین نے کہا کہ پارٹی کو نیے حالات کا ساینسی تجزیہ  کرکے ایک ایسے سماج کی تعمیر کے لے جدوجہد کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں پاکستان کے تمام شہریوں کو  بلا تفریق  مذہب، رنگ، نسل، صنف  اور قومیت کے مساوی آئینی اور قانونی حقوق مل سکیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقِ کی تمام اکائیوں کا اُن کے قدرتی وسائل پر حقِ ملکیت تسلیم کیا جائے۔ جمہوری اداروں اور عدلیہ کو  با اختیارا ور مضبوط بنایا جائے، اور غیر منتخب ریاستی اداروں کی بالا دستی کو ختم کیا جائے۔ دُنیا بھر اور خطے کے ممالک کے ساتھ باہمی مفاد اور برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کئے جائیں اور سامراجی بالادستی اور غلامی سے نجات حاصل کی جائے۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور  جب تک زراعت کو جدید خطوط  پر استوار نہیں کیا جاتا اور زرعی اصلاحات نہیں کی جاتیں، اسوقت تک ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا  کہ جب تک کہ غیر پیداواری اخراجات کم نہیں کئے جاتے، خاص طور پر دفاعی بجٹ کم نہیں کیا جاتا، تب تک ملکی معیشت مستحکم نہیں ہوگی۔

انہوں نے سرکاری اداروں کے افسروں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کو ملنے والی مراعات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے بایاں بازو  و دیگر ترقی پسند قوتوں اور ٹریڈ یونیز کے ساتھ مل کر مشترکہ پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔  اُنہوں نے کہا کہ ہمارے پاس واحد راستہ جدوجہد کا ہے۔

مرکزی صدر اختر حسین خصوصی طور پر کراچی اور جنرل سیکرٹری بخسل تھلہو حیدرآباد ور عابدہ چوہدری، زاہد پرویز ایڈووکیٹ اور رانا محمد اعظم خان لاہور سے کنونشن میں شرکت کے لیے آئے۔ان کو خوش آمدید کرنے کی لیے پارٹی کے سینکڑوں کارکن جلوس کی شکل میں موجود تھے اور آنے والے مہمانوں پر سرخ گلاب کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے۔

تقریب میں پاکستان کسان کمیٹی، پاور لومز ورکرز یونیں، رکشہ ڈرائیورز یونین اور عوامی ورکرز پارٹی کے کارکن جلوسوں کی شکل میں شریک ہوئے۔  

مقامی ہال کارکنوں، کسانوں اور مزدوروں سء کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور کارکن جاگیرداری مردہ باد، سرمایہ داری نظام مردہ باد، زرعی اصلاحات نافظ کرو، مذھب کا سیاسی استعمال بند کرو، اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت بند کرو، زرعی ادویات سستی کرو، تعلیم اور صحت مفت فراہم کرو، غیر ملکی قرضے ضبط کرو، عوام کو جینے کا حق دو کے نعرے لگا رہے تھے۔ کارکنوں کا جوش و ولولہ قابلِ دید تھا۔

انقلابی شاعر کامریڈ عبدالخالق نے انقالابی نظموں اور محنت کشوں کے ترانوں سے محفل کو گرمائے رکھا۔