گزشتہ 12 سالوں کے دوران، یعنی امریکہ میں 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد مذہبی عسکریت پسندوں کے ساتھ ان گنت مذاکرات، امن معاہدے ، فوجی آپریشنز اور حالیہ فوجی عدالتوں جیسے عسکریت پسندانہ حل کی ناکامی نے ثابت کیا ہے کہ ریاست کے نظریات،ریاستی ڈھانچے، قومی سلامتی پالیسی خصوصا خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لائے بغیر یہ گھمبیر مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ دراصل عسکری مفادات پر مبنی حل پاکستان کی نیشنل سیکورٹی سٹیٹ کا خاصہ ہے جوکہ فطرتاً عوام سے ’’رازداری‘‘ اور ’’جھوٹ‘‘ اور عوام کی قتل عام یا جبری نقل مکانی پر مبنی ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اس سے مذہبی جنونیت،تشدد و بربریت،عورت دشمنی، اور مذہبی فرقہ واریت بڑھی ہے۔ یہ حقیقت اب کھل کرسامنے آچکی ہے کہ ’’قومی سلامتی‘‘ (نیشنل سیکورٹی سٹیٹ ) پر مبنی ریاست نہ تو ملک میں امن کا قیام کر سکتی ہے اور نہ ہی ریاست کی رٹ قائم کر سکتی ہے، بلکہ خود اس کا ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ریاست کے نظریات، ڈھانچے ، قومی سلامتی پالیسی کے ڈھونگ اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لائے بغیر پاکستان کے محنت کش عوام بشمول قومی اور مذہبی اکائیوں کی ہم آہنگی اور انسانی بنیادوں پر مشترکہ گذر بسر ممکن نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مذہب اور ریاست کو الگ کرنا، عدم مدا خلت اور پڑوسی ممالک سے پرامن تعلقات اور خود مختاری پر مبنی خارجہ پالیسی ، فوجی اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو کے گٹھ جوڑ کو توڑنا، ریاست کا بلاامتیاز تمام مذہبی دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کے لئے سچائی پر مبنی اقدامات، مذہبی عسکریت پسندوں کی معاونت اورانکی پشت پناہی سے ہاتھ روکنا، مذہبی بنیاد پرستی کو تقویت دینے والے ادارے یعنی فیڈرل شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کا خاتمہ، دینی مدارس کو سرکاری سکولوں میں تبدیل کرنا، تعلیمی نظام کو سیکولر اور جدید سائنسی اور جمہوری و صنفی برابری کے بنیادوں پر استوار کرنا ،فوجی اخراجات میں کمی اور عوام کی ترقی اور بہبود خصوصا تعلیم اور صحت کے ملکی بجٹ میں اضافہ جیسے اقدامات کئے بغیر یہ مسائل کا حل ڈھوڈنا سعی لاحاصل ہے۔
ہم مصیبت کے اس دلخراش اور فہم طلب موقع پر عیسائی بہنوں اور بھائیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور انکے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
عابد حسن منٹو، فانوس گوجر، فاروق طارق