عوامی ورکرز پارٹی کا سندھ کے حقوق، اور ریاستی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف مارچ

پریس ریلز

محنت کش خواتین اور بچے عوامی ورکرز پارٹی کے مارچ میں

عوامی ورکرز پارٹی سندھ نے نجکاری، بے روزگاری  و مہنگائی، سندھ اور  بلوچستان کے جزائر و زمینوں پر وفاقی حکومت کا قبضہ ،  سیاسی  و سماجی کارکنوں  کی جبری گمشدگیوں اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف اور زرعی اصلاحات کے حق میں ہفتہ کے روز 5 دسمبر کو ‘سندھ  عوامی مارچ ‘  کا اہتمام کیا  جس میں کارکنوں ، نوجوانوں بشمول خواتین اور بچوں   کی بہت  بڑی  تعداد  نےحصہ لیا اور وفاق کے تمام عوام  دشمن  پالیسیوں اور فیصلوں کو مسترد کردیا۔

مارچ میں وفاقی صوبائی اور شہری قیادت کے ساتھ ساتھ کراچی حیدرآباد ، لاڑکانہ ،سکھر، گھوٹکی ، سانگھڑ سمیت سندھ کے تمام علاقوں سے کارکنان  کی بھاری تعداد میں شرکت کیں۔ اس کے علاوہ نیشنل پارٹی، عوامی جمہوری پارٹی، جئے سندھ محاز، کمیونسٹ پارٹی پاکستان، پی پی پی شہید بھٹو، لیاری عوامی محاذ، اندیجینئس رائٹس الائنس، وائس آف شیعہ مِسنگ پرسنز، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور کراچی بچاؤ تحریک سمیت بائیں بازو کی مختلف تنظیموں نے شرکت کی۔

مارچ ، جس کی قیادت عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر یوسف مستی خان، سیکریٹرئ جنرل اختر حسین، وعوامی ورکرز پارٹی سندھ کے صدر بخشل تھلہو، سیکریٹری ماروی لطیفی ، اثر امام اور دیگر رہنماوں نے کیا ،  ریگل چوک سے شروع ہو کر ٹاور   فوارہ چوک پر اختتام پذیر ہوا ۔ شرکاء نے  گورنر ہاوس کے سامنے دھرنا دیا ۔ شرکاء نے  عوامی ورکرز پارٹی کے سرخ و سفید رنگ کے جھنڈے اور کارل مارکس، لینن، ہو چی مینہ   اور مشہور ہاری رہنماء حیدر بخش جتوئی کے پورٹریٹ  اور تصاویر  اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے  اور  ریاستی ظلم و جبر،  بھوک اور بے روزگاری اور جاگیرداری سے آزادی کے نعرے لگا رہے تھے  ۔۔

مارچ کے شرکاء نے  مختلیف قراردادیں منظور کیں اور مطالبہ کیا کہ سندھ کے جزائر پر وفاق کے قبضے اور تعمیرات کا صدارتی آرڈیننس “پیڈا ” ، سندھ دشمن، ماہی گیر دشمن اور ماحول دشمن فیصلہ ہے ، جسے واپس لیا جائے ؛  ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی   (ڈی، ایچ، اے) اور بحریہ ٹاؤن کے غیرقانونی توسیع کو روکا جائے اور کاٹھور گڈاپ کے عوام کو ملانے والے تمام راستے بحال کر کے انہیں ان کے تمام حقوق دیئے جائیں ـ

ایک اور قرارداد کے ذریعے ملک میں روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے، کم سے کم اجرت ایک تولہ سونا کے برابر کرنے اور اس کو یقینی بنانے اورروز مرہ کے کھانے پینے کے اشیاء پر سبسڈی دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

شرکاء نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اسٹیل مل سمیت تمام سرکاری اداروں کی نج کاری اور مزدوروں کی جبری بےدخلی کے سلسلے کو بند کیا جائے، اور ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کیا جائے۔
فیڈرل شریعت کورٹ کی جانب سے ذرعی اصلاحات پر پابندی غیر آئینی ہے، اس کو ختم کیا جائے ـ چھاونیوں، ریٹائیرڈ فوجی آفیسرز، ملک ریاض جیسے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے زمینیں لیکر، 25 ایکڑ نہری اور 50 ایکڑ بارانی زمین کے حساب سے سندھ کے بےزمین کسانوں میں تقسیم جائے ـ
سیاسی و سماجی کارکنوں کی جبری گمشدگی کی صورت میں ہونے والے ریاستی دہشتگردی کو ختم کیا جائے اور شہریوں کے آئینی اور  جمہوری حقوق کو یقینی بنایا جائے ـ

نہوں نے مطالبہ کیا کہ صنفی تفریق اور پدر شاہی جنونیت کو ہوا دینے والی روایتوں کا خاتمہ کیا جائے اور عورت مخالف حدود آرڈیننس کے قانون کو ختم کیا جائے؛  طلباء یونین بحال کی جائیں، کورونا وبا کے ہونے تک طلباء کی فیسس معاف کی جائیں، طلباء کو بنا تفریق انٹرنیٹ کی سھولت فرائم کی جائیں، ایک قومی نصاب بنانے کی کوششوں کو بند کیا جائے ـ
کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں معاہدے کے مطابق پانی چھوڑا جائے، بنگلہ دیش اور ہندوستان کی طرح دریا کو فطری حق دیا جائے، ان کو مرنے سے بچایا جائے؛ اٹھارویں ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ کا نفاذ کیا جائے اور قوموں کو حق خودارادیت دیا جائے؛  ناقص ٹرانسپورٹ کے نظام اور ٹینکر مافیا کو ختم کر کے، ۔

https://fb.watch/2bl8QZ-hml/

کراچی شہر کے تمام مسائل فل فور حل کئے جائیں

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ملک میں جاری انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے کے لئے سیکولرزم کو نافذ کیا جائے اور تعلیمی نصاب میں سے انتہا پسند مواد خارج کر کے تعلیمی نظام اور میڈیا میں سیکولر سوچ کو پروان چڑھایا جائے۔

مارچ کے شرکاء سے  خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے وفاقی صدر  یوسف مستی خان نے کہا کہ اسٹبلیشمینٹ  اور حکمران اشرافیہ نے سندھ ، بلوچستان، پختونخواء، اور دیگر قوموں کے وسائل پر قبضہ کرکے سات دہائیوں سےغلام بنایا ہوا ہے ۔  

ان کا کہنا تھا کہ سندھ کسی وفاقی ادارے کی جاگیر نہیں، کسی ملک ریاض جیسے بلڈر کے بیچنے کی شے نہیں، کسی جاگیردار کے لئے سودا بازی کرنے کا اکھاڑا نہیں۔ سندھ سندھی عوام کا ہے، مزدور وں کا ہے کسان وں کا ہے تنخواہ دار  محنت کار عوام کا ہے ۔

انہوں نے خبردار کیا کہ”  ہم نہ وفاقی حکومت کو سندھ کے جزائر پر قبضہ کرنے دیں گے اور نہ بحریہ اور ڈی ایچ اے کو ملیر اور کاٹھور کی زمینوں پر قبضہ کرنے دیں گے”۔

انہوں نے کہا کہ عوامی ورکرز پارٹی سندھ کے ساتھ نوآبادیاتی  طرز عمل کو برداشت نہیں کرے گی۔ اب ہم مزید غلام رہنے کے لئے تیار نہیں۔

 انہوں نے  وفاقی حکومت  سے مطالبہ کیا کہ  وہ فوری طور پر صدارتی آدڈننس پیڈا کو  واپس لے اور صوبائی حکومت ملک ریاض اور ڈی ایچ اے کو سودیشیوں کی زمینوں پر قبضے سے روکے ورنہ ایسا نہ ہو کہ عوام کا رد عمل آپ کی حکومتوں کو بھی بہا کر لے جائے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے وفاقی سیکریٹری جنرل اختر حسین ایڈووکیٹ نے  اپنی تقریر کے دوران  کہا کہ  کہ آج حکمرانوں کے عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ڈیڑھ کروڑ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں  اور حال ہی میں اسٹیل مل سے چار ہزار سے زیادہ محنت کشوں کو نوکریوں سے نکا لاگیا ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں  ۔

انہوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ اسٹیل مل سمیت تمام سرکاری اداروں کی نجکاری اور مزدوروں کی جبری بےدخلی کے سلسلے کو بند کیا جائے، اور ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کیا جائے

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی جانب سے زرعی اصلاحات پر پابندی غیر آئینی ہے، اس کو ختم کیا جائے ـ

  اس کے ساتھ ساتھ چھاؤنیوں، ریٹائیرڈ فوجی آفیسرز، ملک ریاض جیسے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے زمینیں لیکر، 25 ایکڑ نہری اور 50 ایکڑ بارانی زمین کے حساب سے سندھ کے بےزمین کسانوں میں تقسیم جائے۔

عوامی ورکرز پارٹی سندھ کے صدر بخشل تھلہو کا کہنا تھا کہ سندھ کے جزائر پر وفاق کے قبضے اور تعمیرات صدارتی آرڈیننس ” پیڈا ” نہ صرف سندھ دشمن فیصلہ ہے بلکہ ماہی گیروں کے روزگار پر وار اور ماحول کے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا۔ سندھ کی عوام اس فیصلے کو یکسر مسترد کر کے اسے واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے اور وفاق اور صوبے کی حکومتوں کو اس سے منافع کمانے سے دور رہنے کی ہدایت کرتی ہے۔

 عوامی ورکرز پارٹی سندھ ان جزائر کا سودا ہر گز نہیں ہونے دے گی۔ بخشل کا مزید کہنا تھا کہ سندھ کے فرزند واں کی جبری گمشدگیاں ایسا تاثر دیتی ہیں کہ سندھ ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔ اس عمل کو فوری طور پر نہ روکا گیا اور لاپتہ اسیران کو بازیاب نہ کیا گیا تو سندھ میں عوامی طوفان برپا ہو جائے گا۔

 سندھ کے سیکریٹری جنرل ماروی لطیفی نے اپنی تقریر میں کہا کہ پدر شاہانہ ، سرمایہ دارانہ   نظام اور مذہبی جنونیت کے ذریعے  عوام ک بلعموم اور محنت کش خواتین کو بالخصوص غلام بنایا گیا ہے  او  ر ان کو خوف میں مبتلا کیا ہوا ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ  عورتوں  بالخصوص مذہبی اقلیتیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم،   اغواء، جبری شادی، جنسی تشدد اور  امتیازی سلوک کو بند کیا جائے اور  ان کو تحٖط دیا جائے اور مجرموںکو سخت سزا دی جائے۔   

مارچ کے شرکا سے خطاب  کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور کراچی بچاؤ تحریک کے کنوینر خرم علی نے کہا کہ کراچی کے مسائل اور سندھ کے دیگر شہروں کے مسائل یکسان اور  ایک دوسرے  سے جڑے ہوئے ہیں جہاں جاگیردارانہ باقیات اور گماشتہ ریاستی اداروں نے صوبے کے تمام وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے اور عوام مسائل کے انبار تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ کے تنخواہ دار طبقات کے مابین غیرمخاصمانہ تضادات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جاگیرداروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں نے سندھ کے ہاری و مزدور کو ایک دوسرے سے جدا کر کے مظلوم طبقات کی تحریک کو ابھرنے سے روکا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں اس مارچ کا مقصد کراچی کو احساس دلانا ہے کہ وہ سندھ کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ناطے سندھ کے تمام مظلوم طبقات کی آواز بن کر وفاقی اجارہ داری اور صوبے میں موجود جاگیردارانہ باقیات اور گماشتہ سرمایہ داروں کے خلاف علم بغاوت بلند کرے۔

عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے صدر شفیع شیخ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ایجنڈے پر ملک کو ان طاقتوں کی غلامی پر مامور کیا جا رہا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ معاشی بحرانوں کے زمانے میں معیشت کو سہارا دینے کے لئے حکومت معاشی سرگرمیوں اور عمل کی لگام سنبھال کر لوگوں کے لئے نوکریوں کے دروازے کھولتی ہے لیکن پاکستان کے گماشتہ ریاستی ادارے اور جاگیرداروں اور گماشتہ سرمایہ داروں کی پارٹیاں اہم قومی اداروں کی نیلامی کر رہی ہیں اور لوگوں سے ان کے روزگار چھین کر ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا کر رہی ہیں۔ ۔

اس کے علاہ ریلی  سے، جیئے سندہ محاذ کے عبدالخالق جونیجو، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے اقبال خان، نیشنل پارٹی کے تاج مری، لال محمد چانڈیو، اصغر دشتی, لیاری عوامی محاذ کے صدر عیسی بلوچ۔جنرل سیکرٹری عبدالخالق زدران، اختربہادر، ڈاکٹر اصغر دشتی، انجنئیر رشید بلوچ ، منگل مہشوری،نارومل،سعید بلوچ،خدا بخش بلوچ،سمیت دیگررہنما ؤں نے بھی خطاب کیا۔

مارچ کے آخر میں قراردادیں پڑھی گئیں اور لال ہڑتال نے منفرد تھیٹر پیش کیا اور شرکا نے شدید نعرے بازی کی۔

Ali

Awami Workers Party is a Left-wing revolutionary party of the working class, working people. peasants, women, youth, students and marginalised communities. It strives to bring about structural changes in society set up an egalitarian society based on social justice, equality, and free from all kinds of exploitation and discrimination on the basis of faith, religion, class, nationality, gender and colour.