عوامی ورکرز پارٹی کی بلوچ کارکن کے قتل کی مزمت

پارٹی کے رہنماؤں نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی فوری رہائی اور سلامتی کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کیا

پریس ریلز

کراچی: عوامی ورکرز پارٹی کینیڈا میں  حقوق انسانی کی کارکن ، کریمہ بلوچ کے قتل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور واقعی میں ملوث  مجرموں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 35 سالہ کریمہ بلوچ اتوار کے روز کنیڈا کے بے اسٹریٹ اور کوئینز ویسٹ ایریا میں لاپتہ ہوگئیں۔ پیر کو ان کی لاش ملی۔

کریمہ بلوچ ، جنہوں نے سن 2015 میں کینیڈا میں پناہ لی تھی، مظلوم  قوموں خاص طور پر بلوچ قوم پر کی جانے والے جبر اور تشدد پر تنقید کی اور بین الاقوامی فورمز اور سوشل میڈیا پر صنفی عدم مساوات کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔ انہوں نے صوبے میں خواتین کی حقوق  کی تحریک  میں نمایاں کردار ادا کیا۔

کریمہ، جو اپنے طالب علمی کے زمانے میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی رہنما تھیں، کو  بی بی سی نے 2016  میں دنیا کی 100 سب سے زیادہ “متاثر کن  خواتین” میں شامل کی تھیں۔

حال ہی میں ، اس نے بی ایس او آزاد کی  سیکرٹری  اطلاعات صایر بلوچ جنہیں 4 اکتوبر کو لاپتہ کیا گیا تھا،  کی رہائی کے لئے سوشل میڈیا پر مہم چلائی تھی ۔

ان کا قتل بیرون ملک میں کسی  بلوچ کارکن کا دوسرا ہائی پروفائل واقع  ہے۔

اس سے قبل ، بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر ساجد حسین بلوچ کو  رواں سال 23 اپریل کو سویڈن میں  اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا  اور ان کی لاش ایک ندی سے ملی تھی۔

ایک بیان میں اے ڈبلیو پی کے صدر یوسف مستی خان ، جنرل سکریٹری اختر حسین ایڈووکیٹ ، ڈپٹی سیکرٹری عصمت شاہجہاں، خیبر پختونخوا کے صدر اخوندزادہ حیدر زمان، سندھ کے صدر بخشل تھلہو، سرائیکی وسیب  کے صدر فرحت عباس، پنجاب کے صدر عمار رشد، اور بلوچستان  کے صدر یوسف کاکڑ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ واقعہ ایک ایسے ملک  میں وقو ع پذیر ہوا ہے جس  کو  اپنے تکثیری معاشرے اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرنے اور جنوبی ایشیا ئی تارکین وطن کی  سب سے بڑئ آبادی کی میزبانی کرنے  پر فخر ہے ۔

جناب مستی خان نے کہا ، “مجھے کریمہ کی المناک موت کا سن کر بہت اذیت ملی ہے ۔ ان کی موت  بلوچستان کے مظلوم عوام کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔”

انہوں نے کہا کہ کریمہ کا قتل اس حقیقت کو یاد دہانی کراتی ہے کہ  اس ملک میں مظلوم عوام کے لئے آواز بلند کرنے والوں کی جانوں کے لئے کتنا خطرہ ہے۔

عصمت شاہجہاں نے کہا کہ یہ  واقع اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ  ریاستی جبر، کارکنوں کو ڈرانے، اغوا ، تشدد اور ہلاک کرنے  کے واقعات میں خطرناک  حد تک اضافہ ہوا  ہے۔ یہاں تک کہ منتخب نمائندے بھی اس ملک میں محفوظ نہیں ہیں ۔ انہوں نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہیں گذ شتہ ہفتے  موٹر وے پر پولیس نے گرفتار کیا اور سندھ پولیس کے حوالے کیا گیا۔

انہوں نے باشعور افراد اور حقوق انسانی کی تنظیموں سے  کہا کہ وہ کریمہ کے قتل اور علی وزیر کو پولیس تحویل میں جان سے مارنے کی دھمکی پر آواز بلند کریں۔

اے ڈبلیو پی کی رہنما عالیہ امیرعلی  نے کہا کہ بلوچ دانشوروں،  سیاستدانوں،  کارکنوں، اور بلوچ معاشرے کے مختلف طبقات میں کریمہ کی ذہانت، ہمت، اور بلوچ عوام کے حقوق سے وابستگی کے لئے بہت احترام پایا جاتا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ کریمہ بہت کم عمری میں ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کو سیاست میں آزادانہ طور پر حصہ لینا غیر معمولی بات تھی، ظلم اور تشدد کے خلاف مزاحمتی تحریک سے وابستگی کے باعث سب سے زیادہ قابل احترام بلوچ سیاسی رہنما بن گئی تھیں۔

اے ڈبلیو پی کے رہنماء اور سابق صدر پنجاب عاصم سجاد اختر نے کہا کہ یہ واقعہ اس حقیقت کو بھی یاد دلاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان بلوچ کارکنوں  کو جو سماجی انصاف  اور ایک با وقار زندگی گزارنے  کے لئے جب آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں “ریاست دشمن”  کہا جاتا ہے ۔ اس سے بلوچ نوجوانوں کے زخم زیادہ گہرا ہوجاتے ہیں۔

اے ڈبلیو پی  کے رہنماؤں نے بلوچستان میں فوجی آپریشن اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں  بشمول بے گناہ لوگوں کو اغوا کرنا اور ان کا قتل بھی شامل ہے، کے خاتمے کا مطالبہ کیا ۔

انہوں نے علی وزیر کی سلامتی کو یقینی بنانے اور ان کی فل فور رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔

اے ڈبلیو پی  کے رہنماؤں نے پاکستان اور کینیڈا کی حکومتوں سے  مطالبہ کیا کہ وہ بلوچ کارکن کی ہلاکت کی آزاد اور شفاف تحقیقات کریں اور اس  واقع میں ملوث افراد  کا سراغ لگائیں۔

جاری کردہ:

سیکریٹری اطلاعات عوامی ورکرز پارٹی