انسانی تاریخ میں ’’مادری زبان کا عالمی دن ‘‘کسی اور ملک میں قومی جبر کے حوالے سے نہیں، بلکہ پاکستان میں بنگالیوں کے خون سے تحریر ہے۔ بنگالی زبان کو اُردو کے علاوہ دوسری قومی زبان کا درجہ دینے کے لئے1952 میں ڈھاکہ میں طالبعلموں کے جلوس پر پاکستان کی پولیس نے گولیاں برسائیں اور طالبعلموں کو قتل کیا ۔ 21 فروری اسی جدو جہد کے اعادہ کا دن ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ’’قومی سوال ‘‘ پاکستان میں ترقی پسند سیاست کی ایک بنیادی نظریاتی اساس رہاہے، اور رہے گا۔ قومی شناختوں/تشخصیں، قومی برابری ، حق خود ارادیت و علیحدگی کے سوال تقسیم ہند کے بعد آج تک پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر حاوی ہیں۔ یعنی کہ ہم شروع دن سے حکمرانوں کی طرف سے مسلط کیا گیا نام نہاد ’نظریہ پاکستان‘کی اس بنیاد پر مخالفت کرتے رہے کہ پا کستان ایک کثیرالاقومی ریاست ہے اور یہاں صرف مسلمان نہیں بلکہ سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی، پنجابی، وغیرہ بستے ہیں۔ اگر ہم بنگالیوں کے وجود کو تسلیم کرتے تو شائد آج ہم کہے سکتے کہ وہ بھی اسی کثیر القومی ملک میں ایک بنیادی فریق کے طور پر موجود ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں بنگالی وہ واحد قوم ہیں جس کا اکثریت میں ہوتے ہوئے ، اقلیت کو چھوڑنا پڑا تاکہ بنگالیوں پر ریاستی جبر سے نجات ممکن ہو۔
یقیناًفوج کا تسلط بھی اس ملک کے مظلوم قوموں پر سب سے زیادہ بھاری رہا ہے، اور آج بھی فوج کشیوں اور نسل کشیوں کی شکل میں موجود ہے۔ بلوچ، پشتون ، سندھی وغیرہ کو مارا اس نام پر جاتا ہے کہ شر پسند عناصر’ اسلام ‘ اور ’پاکستان‘ کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ یعنی کہ آج دن تک اپنے قومی وجود کا اظہار کرنا شر پسندی سے منسلک کیا جاتا ہے۔ دائیں بازو کی مذہبی دہشت گرد قوتوں کا معاملہ بھی براہ راست قومی سوال کے ساتھ جڑاہوا ہے۔ پشتون قوم پرست تحریک کے منظم ہونے کا ڈر جہادیوں کو پالنے کی بہت بڑی وجہ تھی۔ عرب دہشت گردوں کو فاٹا میں بسایا گیا جنہوں نے علاقے کو عرب کالونی بنایا۔ ، اور اب بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو دبانے کے لئے مذہبی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ جہادیوں کا نظریاتی اور تنظیمی گھر پنجاب رہامگر ملٹری ٓاپریشنز پختونخواہ اور فاٹا میں کئے گئے اور پختون قوم کو جہاد کی آڑ میں اس جنگ کا ایندھن بنایا گیا ۔ آج پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں سیکولر قوم پرست نظریات سے نوجوانوں کو دور رکھنے کے لیے اور قومی سوال کو کنفیوز کرنے کیلئے ریاستی سرپرستی میں بننے والے رجعتی حلقوں اورڈیتھ سکواڈز کو باقا عدہ سیاسی میدان میں چھوڑا جارہا ہے۔
کشیمیر اور گلگت بلتستان کی قومی ٓازادی کا سوال بھی اس ضمن میں اہم ہے کہ ان دونوں کی ٓاذاد قومی وحدتوں کو تسلیم نہیں کیا گیا، انہیں پاکستان کی کالونی بنا کے رکھا گیا، انکی حق خودمختاری کو پامال کیا گیااور انکی نسلوں کو جنگ ، تشدد اور غربت میں جھونکا جا رہا ہے۔
نو آبادیادتی نظام سے لیکر پاکستانی آمریتوں تک نے مختلف قومیتوں کو کئی مختلف انتظامی اکائیوں میں تقسیم کر کے انکی قومی وحدتوں اور شناخت کو مسخ کیا ، خاص طور پر پشتون اورسرائیکی کو۔ پاکستان کی موجودہ وفاق نے بھی اس قومی جبر کا ازالہ کر کے انکی تاریخی قومی وحدت اور شناخت کو بحال نہیں کیا ۔ اٹھارویں ٓائینی ترمیم کے ذریعے جومحدودصوبائی خود مختاری حاصل کی گئی وہ بھی وفاق اور فوج سے برداشت نہیں ہوتی۔
ترقی پسندوں ، اور خاص طور پر پنجاب کے ساتھیوں کو مشترکہ طور پر تمام مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت بشمول حق آزادی /علیحدگی کو أئینی طور پر تسلیم کرانے کی جدوجہد کرنی ہو گی، اس کے بغیر کوئی رستہ نہیں۔ بصورتِ
دیگررجعت کی راج مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائے گی!
منجانب: عاصم سجاد اختر
صدر، عوامی ورکرز پارٹی، پنجاب