عوامی ورکرز پارٹی اوردیگر سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں اور سماجی شخصیات کی سوشلسٹ اور کسان تحریک کے بانی کو زبردست خراج تحسین؛ مقررین اور شرکاء کی ایک متحدہ بایاں بازو کی جماعت کی تشکیل اور جدوجہد کےعزم کا اظہار۔
پریس ریلز
لیڈز (یو کے) : چوہدری فتح محمد پاکستان میں کسانوں، مزدوروں، مظلوم و محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی تحریک کے سالار تھے۔ وہ زندگی بھر اپنے آدرشوں اور نظریات کے ساتھ عملی طور پر وابستہ رہے۔ آج چوہدری فتح محمد کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے مشن کو آگے بڑھاہیں اور تمام ترقی پسند، انسان دوست اور جمہوریت پسند قوتوں کو اکھٹا کریں اور اس استحصالی نظام کے خلاف جدجوجہد کو تیز کریں۔
ان خیالات کا اظہار چوہدری فتح محمد کے دیرینہ ساتھی،عوامی ورکرز پارٹی کے بانی صدر، نامور دانشور اور قانون دان عابد حسن منٹو نے گزشتہ روز چوہدری فتح محمد کی یاد میں منعقدہ تعزیتی پروگرام سے زوم کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
پروگرام کا اہتمام عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ نے کیا تھا۔
عابد منٹو کے علاوہ عوامی ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان، سیکریٹری جنرل اختر حسین ایڈووکیٹ،مزدور کسان پارٹی کے صدر افضل خاموش، سینئر صحافی اور انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے چیئرمین آئی اے رحمنٰ، اے ڈبلیو پی پنجاب کے صدر عمار رشید، پنجاب کے جنرل سیکریٹری عابدہ چوہدری،کمونسٹ پارٹی آف ا نڈیا مارکسسٹ کے رہنماء ہیرسیو بینسں، عالیہ امیر علی، اے ڈبلیو پی یو کے کے رہنماء اور قانون دان مزمل مختار، نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر حسن ناصرنےاپنے تاثرات اور یادیں ویبنار کے ذریعے بیان کیا۔
پروگرام کی میزبانی اے ڈبلیو پی برطانیہ کے رہنماء اور نامور ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر افتخارمحمود، ڈاکڑ احمد توحید چٹھہ، اے ڈبلیو پی یو کے کے جنرل سیکریٹری امرام یوسف اور علینہ یوسف نے انجام دیں۔
عابد منٹو نے کہا کہ میرے اور چوہدری صاحب کے درمیان ستر سالہ طویل رفاقت رہا ہے کہ ان پر بات کی جائے تو کئی گنٹھے لگ سکتے ہیں۔ چوہدری فتح نے 1948 میں کمونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصیل کیں اور کسانوں کو منظم کرنے میں لگ گئے جو ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تاریخی کسان کانفرنس پر منتج ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے رحیم یارخان، خانیوال سے لے کے خانپور تک کسانوں کو منظم کیا اور کئی کانفرنسیں منعقد کیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بہت آسان لگتا ہے کہ کسانوں کو منظم کیا جائے۔ ذرا اس دور کا سوچئےجب چند شہروں کے علاوہ دہاتوں میں سڑک تک نہیں ہو کرتے تھے۔ چوہدری فتح محمد اس بے سرو سامانی کے عالم میں سائیکل اور ایک ٹوٹے پھوٹے موٹر سایئکل پر گاؤں گاؤں دن رات گھومتے رہے اور ان کی محنت کا وجہ سے تاریخی کانفرنس ممکن ہوسکا۔
آج شہروں میں مال روڈ پر مظاہرہ کرنا تو بہت آسان ہے جسے میڈیا پہ دکھایا بھی جاتا ہے لکین دہاتوں میں جن ساتھیوں نے کام کیا وہ میڈیا میں اس طرح نظر نہیں آتا۔
انھوں نے کہا کہ چوہدری صاحب کے کمیٹمینٹ اور جذبے کو زندہ رکھنے اور ایک وسیع تر بایاں بازو کی سیاست کو ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔
منٹو صاحب نے کہا کہ چوہدری فتح محمد بہت پڑھے لکھے، باہوش اور باکردار انسان تھے۔ انھوں نے صرف کتابی علم حاصیل نہیں کیا تھا بلکہ عملہ طور پر اسے زمیں کے ساتھ جڑت پیدا کرکے لوگوں کے درمیاں رہتے ہوئے استعمال کیا۔ انہوں نے نہ صرف دہاتوں میں کسانوں اور مزارعین کو منظم کیا بلکہ وہ شہروں کے نچلے درمیانہ طبقہ، دانشوروں، خواتین، طلباء اور نوجوانوں، کسانوں، صنعتی مزدوروں، کی تربیت کرکے ایک مضبوط اور دیرپا تحریک کو منظم کرنا چاہتے تھے ۔
وہ سمجھتے تھے کہ مظلوم و محکوم اور استحصال کے شکار طبقات کو منظم کئےبغیر سماجی تبدیلیی ممکن نہیں۔
آئی اے رحمنٰ نے کہا کہ چوہدری فتح پاکستان میں کسان تحریک اور زرعی مسائل اور زرعی معیشت کے انسائکلو پیڈیا تھے۔ آج اعداد وشمار کا ملنا بہت آسان ہوگیا ہے لیکن ان دنوں جب کی صرف انسانی یاد داشت پر انحصار کرنا پڑتا ٖتھا فتح محمد کو پاکستان کے جاگیرداروں، کسانوں، اور زرعی معیشت کے بارے میں تمام معلومات حاصیل تھیں۔ انھوں نے ذکر کیا کہ ایک دفعہ پاکستان ٹائمز اخبار نے زرعی معیشت پر ایک خصوصی مضمون کی اشاعت کا اہتمام کیا تو اعداد وشمار کہیں دستایب نہیں تھے۔ تب چوہدرئ فتح محمد کو بلایا گیا انھوں نے تفصیل کے ساتھ معلومات فراہم کیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر یوسف مستی خان نے کہا کہ چوہدری فتح پاکستان میں کسانوں، مزدوروں اور ترقی پسند جماعتوں کو متحد کرکے ایک وسیع تر انقلابئ تحریک پیدا کرنے کے لئے زندگی بھر کوشان رہے۔ آج بھی ہماری پارٹی انہی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔جن میں مزدور کسان پارٹی اور نیشنل پارٹی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے اس میں تمام ترقی پسند، سامراج دشمن اور جمہوریت پسند قوتوں کو اکھٹا ہو کر جدوجہد کرنےکی ضرورت ہے۔
مزدور کسان پارٹی کے صدر افضل خاموش نے کہا کہ چوہدری فتح محمد تمام ترقی پسند پارٹیوں اور قوتوں کے مشترکہ اثاثہ تھے۔انہوں نے ہشت نگر اور دیگر علاقوں میں کسانوں کی تاریخی جدوجہد اور ان کو زمیں کے مالک بنانے اور چوہدری فتح محمد کی جدوجہد پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ تمام ترقی پسند قوتوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے سیکریٹری جنرل اختر حسین ایڈووکیٹ نے چوہدری فتح کے ساتھ 1980 کے دہائی سے تعلق اور سوشلسٹ پارٹی اور کمونسٹ لیگ کے انضمام اور دیگر پارٹیوں کے ادغام کے سلسلے میں چوہدری فتح محمد کی کوششوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کے خواب یعنی ملک میں کسانوں اور مزدوروں کے ایک وسیع جدوجہد کے ذریعے ایک سوشلسٹ انقلاب کے لئے تمام ترقی پسند قوتوں کو اکٹھا کریں گے اور پاکستان میں رجعت پسند فاشسٹ حکمران طبقوں فوجی و سول بیوروکریسی کے چنگل سے کروڑوں محنت کسشوں اور محنت کار عوام کو نجات دلانے کے لئے جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
کمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لندن کے رہنماء ہرسیو بینس نے کہا کی چوہدری فتح برصغیر کے تمام ترقی پسند قوتوں کے مشترکہ اثاثہ تھے۔ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پورے جنوبی ایسشاء کے خطے میں رجعت پسند سامراجی قوتوں کے خلاف ترقی پسند تحریک کو منظم کیا جا ئیے ۔
اے ڈبلیو پی پنجاب کے صدر عمار رشید نے کہا کی چوہدری فتح محمد کی زندگی اور جدوجہد نوجواں انقلابیوں کے لئے ایک مشعل راہ ہے آج ہمیں ان کی جدوجہد سے سیکھنے اور نئے حالات میں پارٹی کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ آج اس عالمی وبا نے نیولبرل سرمایہ داری نظام کو بری طرح بے نقاب کیا ہے جس کی بدولت پوری دنیا خطرے میں پڑ گئی ہے اور لوگ اس کے خلاف اواز بلند کرنے لگے ہیں ۔ اس صورتحال میں ہمیں پارٹی کو نئے خطوط پر منظم کرنے اور ایک متبادل پروگرام دینے اور چوہدری فتح محمد کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے ایک انقلابی نظم” مت سمجھو ہم نے بلا دیا ” گا کر چوہدرئ فتح محمد کو خراج تحسین پیش کیا۔
عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کےسیکریٹری عابدہ چوہدری نے کہا کہ چوہدری صاحب اخری عمر تک پرعزم رہے اور ہر اجتماع میں شرکت کرتے تھے اور الیکشن میں ہمیشہ حصہ لیتے رہے تاکہ لوگوں کو ایک متبادل یانیہ دے سکیں۔ ان کی گفتگو ہمیشہ مدبرانہ ہوتے تھے اور کارکنوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ ان کی انکھوں میں ہمیشہ چمک ہوتی تھی۔
عالیہ امیر علی نے چوہدری فتح محمد کے ساتھ اپنے ملاقاتوں کا زکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان سے جدوجہد کے بارے میں اور کسانوں مین کام کرنے کے طریقوں کے بارے میں سیکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے کہا کہ آج پارٹی میں نئے خون اور نئے سوچ و فکر خاص ھور پر نوجوانوں اور خواتین کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے سیکریٹری خرم علی نیئر نے کہا کی چوہدری فتح محمد نوجوانوں کے لئے بھی اتنا اہم رول ماڈل تھے جتنا وہ کسانوں اور مزدوروں کے لئے تھے۔
اے ڈبلہو پی کے رہنماء ڈاکٹر افتخار محمود نے کہا کہ چوہدری فتح محمد نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیچائیت کا ایک ایسا نظام قائم کیا تھا کہ جس کی وجہ سے کوئی پولیس افیسر وہاں کے تھانوں میں آنے کے لئے تیار نہی ہوتےتھے کیونکہ وہ سارے تنازعات پنچائیت کے زریعے حل کرتے تھے۔
ڈاکٹر توحید نے اپنے اختتامی کلمات مین تجویز پیش کیا کہ پارٹی سپریم کورٹ میں دائر زرعی اصلاحات کے مقدمے پر زور دیں اور اسے اجاگر کریں۔
چوہدری ٖفتح محمد کے صاحبزادے اور عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے رہنما پرویز فتح نے کہا کہ ان کے والد صاحب بہت بردبار اور وسیع القلب انسان تھے وہ مخالفین اور خاص طور پر مذہبی لوگوں کے ساتھ بحث میں الجھنے اور ان کے پیچ پر کیھلنے کی بجائے ان کو اپنے پیچ پہ لے آتے اور سماجی ناانصافی، معاشی استحصال، طلم و جبر کے موضوعات پر ان سے بحث کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ سب ان کی عزت کرتے تھے۔ انہوں نے ان کی زندگی کے دلچسپ گوشوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ۔
چوہدرئ فتح محمد نے متحدہ ہندوستان مین جالندھر کے ایک غریب کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ بی اے کا امتحان دیا تو دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھئ۔ شروع میں وہ کانگریس سے متاثر تھے الئے برطانوی فوج میں برتی ہو کر فسطائیت کے خلاف لڑنے برطانیہ گئے۔ جنگ ختم ہوئی تو فوج کی نوکری چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں آگئے اور وہاں ایک لائبریری بنا کر لوگوں کو پڑھانے میں لگ گئے۔ اور خود اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو سامراج نے اپنی شیطانی چال چلی اور مذہبی منافرت کو پھیلایا۔ جس سے پورے ہندوستان میں آگ لگ گئی۔ چوہدری فتح محمد کے والد چوہدری امیر الدین کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کیا۔ وہ اپنی ماں تین بہنوں اور چھوٹے بھائی کو لے کر پاکستا ن آ گئے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں چک نمبر 305 گ ب میں آباد ہوگئے اور انہیں 25ایکڑ زمیں الاٹ ہوگئی۔ انھوں نے ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی دیکھ بھا ل کے لئے تنظیم قائیم کیں اور سماجی کاموں میں لگ گئے۔
ان کا چھوٹا بھائی کاشتکاری کرنے لگ گیا۔ ابھی آباد ہوئے پانچ ماہ ہوگئےتھے کہ چھوٹے بھائی محمد شفیع کا انتقال ہوگیا۔ چوہدری صاحب اپنے تین بہنوں اور بیوہ ماں کے واحد سہارہ رہ گئے۔
سرکار نے انہیں گاوں کا نمبردار مقرر کیا اور وہ کسانوں اور بے زمین مزارعین کے حقوق کی جدوجہد میں لگ گئے۔ سرکار نے انہیں قانون کے مطابق نمبرداری کے عوض ساڑھے بارہ ایکڑ زمیں الاٹ کرنا چاہا تو انھوں نے زمین لینے سے انکار کیا کیونکہ وہ ایک سچے انقلابی تھے ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کسان کمیٹی کے منشور کے مطابق حد ملکیت یعنی 25 ایکڑ زمیں پہلے سے ہے۔
1951 ء میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوا، تو اس وقت وہ کیمونسٹ پارٹی کے رکن بن چکے تھے۔پارٹی نے گرفتاری نہ دینے اور زیر زمین رہ کر کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔اس عرصہ میں انہوں نے کمونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑا جو صرف 26 ووٹوں سے ہار گئے۔ بعد ازاں گرفتاری دے دی۔ 1953ء میں راولپنڈی سازش کیس بنا تو انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔جنرل ایوب خان مارشل لاء لگا دیا۔ پہلے انہیں لائلپور جو اب فیصل آباد کہلاتا ہے جیل منتقل کیا گیا۔اور پھر شاہی قلعہ لاھور کے عقوبت خانے میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد لاہورجیل اور دو سال تین ماہ گھر پر نظر بند کیا گیا۔
اس عرصہ میں پاکستان کے نامور سیاسی رہنماء اور چوہدری فتح محمد کے دوست قسور گردیزی نے انہیں کھتوں میں پھل دار درخت لگانے کی ترغیب دی اور ملتان سے نر سری کے پودے بھیجنا شروع کیا۔ رہائی کے بعد دس برس تک انھوں نے ملک بھر میں کسان کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کیا ۔ اسی کی بدولت 1970ء کی تاریخی کسان کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ممکن ہوسکی۔ سال 1969 میں ان کی پہلی کتاب ‘پاکستان کے زرعی مسائل’ شائع ہوئی جو پاکستان میں زرعی ڈھانچہ کی ایک ڈکشنری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد ‘زرعی مسائل اور کسان تحریک’ چھپی اور زرعی رپورٹوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جو 2012 تک جاری رہا۔ اسی لئے پاکستان میں دانشور حلقوں اور صحافیوں میں انہیں زرعی معیشت پر انسائیکلو پیڈیا سمجھا جاتا ہے۔ جس کا تفصیلہ اظہار آئی اے رحمنٰ صاحب نے اپنے تقریر میں اس دور کے بارے میں کیا جب وہ ٖفیض احمد فیض کے ساتھ پاکستان ٹائمز کے سب ایڈیٹر تھے اور وہ اپنے مضامین کے لئے اعداد و شمار چوہدری فتح محمد سے ہی لیتے تھے۔
ضیاع الحق کے مارشل لاء کے سیاہ دور میں جب جیل گئے تو تمام ترقی پسند وں کو قائل کیا کہ سب مل کر ایک متحدہ پارٹی کا قیام عمل میں لائیں۔ رہائی کے بعد مزدور کسان پارٹی کے رہنماؤں میجر اسحاق، غلام نبی کلو اور لطیف چوہدری ان کے گاؤں جا کر تمام معاملات طے کیئے۔ لیکن بد قسمتی سے ایک ہفتہ کے بعد ہی میجر اسحاق محمد کا انتقال ہو گیا۔
۔پرویز فتح نے کہا چوہدری فتح محمد کی یہ خوبی تھی کہ تمام ترقی پسند انہیں اپنا مشترکہ اثاثہ گردانتے تھے۔
پاکستان سوشلسٹ پارٹی اختلافات کا شکار ہوئی اور دو ھصوں میں بٹ گئی تو چند برسوں میں ہی انھوں نے سی ار اسلم کو قائل کر کے دوبارہ انضمام کرکے پارٹی بنانے پر قائل کیا۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری فتح محمد اپنی غلطیوں کو ہمیشہ کھلے دل سے تسلیم کرتے تھے اور اپنے سے عمر میں چھوٹے سے بھی بڑے خلوص کے ساتھ معافی مانگ لیتے۔ اس کی ایک جھلک ان کے خود نوشت سوانح عمری “جو ہم پہ گزری” میں بھی ملتی ہے۔ جس میں انھوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ عمر کے اس حصے میں انھیں پارٹی کی پنجاب کی صدارت قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ان کی زندگی میں متبادل قیادت ابھر کر سامنے نہیں آئی تو یہ ان کی ناکامی ہوگی۔ وہ ذات اور شخصیت پرستی، گروہ بندی دوہرے چیرے اور دوہرے معیار کے قئل نہ تھے اور خود پرستی کو فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھا کر نظریاتی رنگ دینے کے خلاف تھے۔ بلکہ اسے جاگیردارانہ سوچ کے اثرات اور تحریک کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے ۔
آج ہم نے یہ سوچنا ہے کہ ہم اپنی سیاسی جدوجہد کا دوبارہ جائزہ لے کر اور خود پرستی کے خول سے نکل کر ایک وسیع تر ترقی پسند سیاست کی بنیاد یں رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں؟ سب ساتھیوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تمام ترقی پسند قوتوں کو یکجا کرنے کی کھلے دل سے کوششیں کریں گے اور اپنے کامریڈ چوہدری فتح محمد کے اصولوں کو نئی بنیادیں فراہم کریں گے۔
تعزیتیی ریفرنس کورونا وائرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے زوم پر منعقد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے کسانوں ، مزدوروں، ترقی پسند سیاسی و سماجی کارکنوں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کیں اور چوہدری فتح محمد کے ساتھ ذاتی تعلق اور جدوجہد کے حوالے سے گفتگو کیں۔
مقررین سے شرکاء نے بایاں بازو کے وسیع تر اتحاد، اور موجودہ سیاسی بحران اور ہندوستان و چین کے درمیاں تازہ ترین تناؤ پر سوالات پوچھے۔ زوم چیٹ اور سوال جواب میں شرکاء نے ترقی پسند قوتوں کے اتحاد اور متحدہ لیفٹ کی پارٹی کے قیام پر زور دیا۔ اور اس عزم کے ساتھ تعزیتی ریفرنس کا اختتام ہوا کہ ہم ہون گے کامیاب ایک دن ۔ انقلاب زندہ باد۔