یوسف مستی خان مزاحمت، جرآت اور استقامت کا استعارہ ہے


انہوں نے ے ساری زندگی محکوم قوموں  کے حقوق کی جدوجہد میں گزار دی؛ ان کی جدوجہد کا راستہ ہی ہمارا راستہ ی ہے، عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے زیر اہتمام پارٹی صدر یوسف مستی خان کی یاد میں ہنزہ میں تعزیتی ریفرنس سے  مقررین  کا خطاب


رپورٹ:  شیرنادرشاہی

ہنزہ :  یوسف مستی خان ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک مزاحمتی تحریک  اور جر آت اور استقامت کا استعارہ ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی محکوم قوموں،   لسانی گروہوں، استحصال زدہ محنت کش طبقات  اور کچلے ہوئے عوام کے حقوق کے لئے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی جدوجہد کرتے رہے اور طاقت ور اداروں  اور حکمران طبقوں کو للکارتے رہے ۔

عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی وویمن سیکریٹری ڈاکٹر فرزانہ باری ہنزہ میں پارٹی کے زیر اہتمام پارٹی صدر یوسف مستی خان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو: ظہور الہی

ان کی کے وفات سے ترقی پسند اور سامراج دشمن  تحریک  کو جو نقصان پہنچا  ہے اس کو پورا کرنا بہت مشکل ہے ۔ ان کی سیاست، نظریہ اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان کے  آدرشوں پر عمل کیا جائے اور ان کے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔

ان خیالات کا اظہار  مقررین نے عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر یوسف مستی خان کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان  نےضلعی دفتر ہنزہ میں منعقد کیا تھا ۔

تقریب کا آغاز عوامی ورکرز پارٹی ہنزہ کےجنرل سیکریٹری  اخون بائے نے کیا اور مختصرا یوسف مستی خان کی زندگی اور جدجوہد پر روشنی ڈالی۔

تعزیتی ریفرنس سے عوامی ورکرز پارٹی پاکستان کے  مرکزی سیکریٹری خواتین  اور قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبئہ صنفی مطالعہ کے  سابق سربراہ ڈاکٹر فرزانہ باری،  محقیق،مصنف  ڈاکٹر نوشین علی ،  عوامی ورکرز پارٹی گلتگت بلتستان کے چئرمین کامریڈ بابا جان،  گلگت بلتستان متحدہ تحریک  کے رہنما فدا ایثار، قوم پرست رہنما ایڈوکیٹ  محمد عباس، اے ڈبلیو پی فیڈرل کمیٹی کے  اراکین  عقیلہ بانو اور شیرنادرشاہی،  اے ڈبلیو پی جی بی کے سیئر رہنماٗ وں اکرام جمال، آصف سخی،  ظہور الہی ، نوید احمد ، ماہر لسانیات ڈاکٹر بروشو ڈوڈوک، ودیگر نے  خطاب کیا اور یوسف مستی خان کی جدوجہد اور  زندگی کے مختلیف پہلوں پر  روشنی ڈالی۔

انہوں نے  کہا کہ کامریڈ یوسف مستی خان ایک فرد نہیں بلکہ سوچ، فکر اور نظریے کا نام ہے۔

انہوں  نے اپنی ساری زندگی مظلوم  و محکوم قوموں، پسے ہوئے طبقات،  خواتین  کے حقوق کے لئے صرف کیا۔انہوں نے مظلوم  اقوام  کو  نوآبادیاتی  سرمایہ دارانہ  نظام سے آزاد کرانے کے لئے جدوجہد کی اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی۔

ڈاکٹر فرزانہ باری نے  اس بات پر زور دیا کی کہ ہمیں اپنے طبقے کے لوگوں کو سیاسی میدان میں آگے لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ  ایک متبادل پروگرام کے ذریعے نچلے طبقے کے عوام اور  محنت کشوں  کے مسائل کو اجاگر کر سکیں اور ان کا حل تلاش کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف اور ٖصرف ایک سوشلسٹ  پروگرام  اور پارٹی کے ذریعے ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوسف مستی خان اور کامریڈ بابا جان جیسے رہنماٗ  ہی سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر نوشین نے کہا کہ عوامی ورکرز پارٹی او ربایاں بازو کی  تحریک سے ہیمیں رہنمائی ملتی ہے اور ہم  بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ان کی جدوجہد سے  ہمارے ریسرچ کا بھی رجحان بڑھتا ہے۔

انہوں نے  کہا کہ میں یہاں کے کامریڈز کی جدوجہد کو  لال سلام پیش کرتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک عام تاچر یہ ہے کہ یہ  پسماندہ علاقہ  ہے۔  لیکن  یہ غلط ہے ۔

“میری علم و  تحقیق اور دانش کی تربیت  اسی علاقےکے کامریڈز  میں بیٹھ کر  ہوئی ہے۔”

تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے سربراہ کامریڈ بابا جان نے کہا کہ کامریڈ یوسف مستی خان وہ بہادر آدمی انسان  تھے جنہوں نے کینسر میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی سرمایہ درانہ ، قبائلی اور جاگیردرانہ نظام  اور اسٹبلشمینٹ کے کے خلاف جدوجہد کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت گلگت بلتستان میں سرمایہ داروں اور ظالم حکمرانوں نے عوامی زمینوں، پہاڑوں، دریاوں اور معدنیات پر قبضہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس کے خلاف ہم سب نے یوسف مستی خان کی طرح چٹان بن کر لڑنا ہے۔ جس طرح انہوں نے کرازی میں قدیم گوٹھوں کو مسمار کرنے اور بحریہ ٹاون کے خلاف زبردست مزاحمتی تحریک کو کھڑا کیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی غذر کے رہنما شیرنادرشاہی نے کہا کہ یوسف مستی خان ایک سوچ اور فلسفے کا نام ہے جس کے راستے کو اپناتے ہوئے مظلوم و محکوم قومیتیوں کو ظالموں سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عقیلہ بانو کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں خواتین سپورٹس گالا کے خلاف  رجعت پسند  عناصر  کا احتجاج افسوسناک ہے ۔ہمیں مذہبی شدت پسندی کے خلاف میدان میں آنا ہوگا اور خواتین کو ان کا حقوق دلانا ہوگا۔

اے ڈبلیو پی  کے رہنما  اور ہنزہ حلقہ ۶ سے  گلگگت بلتستان اسمبلی  کے  سابق امیدوار آصف سخی  نے  کہا  کہ “میں نے یوسف مستی خان کو جدوجہد کے راستے میں کبھی لڑکھڑاتے نہیں دیکھا بلکہ وہ ضعیف العمری  اور موذی مرض کے باوجود بھی نوجوانوں سے بڑھ کر جدوجہد کی جو ہم سب کے لئے قابل تقلید ہے۔اگرچہ وہ کینسر جیسے موذی مرض سے جنگ ہار گئے لیکن سماجی نا انصافی، نوآبادیاتی قومی جبر اور حکمران طبقوں کی بد عنوانی اور اسٹبلشمینٹ کے جبر کے سامنے کبھی نہیں جھکے اور نہ مصلحت پسندی کے شکار ہوئے ۔

اکرام اللہ جمال کا کہنا تھا کہ ہمار ایوسف مستی خان سے کوئی رشتہ داری نہیں اور نہ ہی وہ ہمارا ہم زبان ہے لیکن ہمارا ایک ہی رشتہ ہے وہ ہے نظریاتی رشتہ۔

مقررین نے مزید کہا کہ ہم نے یوسف مستی خان کے نظریے کو گلگت بلتستان کے کونے کونے تک پہنچانا ہے اور ایک ترقی پسند سوشلسٹ معاشرے کا قیام عمل میں لانے کے لئےجدوجہد تیز کرنا ہے۔


مقررین نے حالیہ دنوں گلگت میں وویمن سپورٹس گالا  پر تبصرہ کرتے ہوئے  اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ  ریاست اور حکومت نے مذہبی  شدت پسندوں اور رجعتی قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور خواتین کو ان کی بنیادی “کھیلنے کا حق” سے  محروم  رکھا جس کی ہم  شدید مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ آئندہ خواتین کے ساتھ دوہرا معیار قابل قبول نہیں ہوگا۔

مقررین نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے اندر ٹیکس کے نفاز  اور گندم  کی رعایتی نرخ  پر فراہمی کا خاتمہ کیا جارہا جو کہ متنازعہ خطہ کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔  عوامی ورکرز پارٹی اس کو عوام کو بھوکا مارنے کی سازش سمجھتی ہے اور اس کی مذمت کرتی ہے۔

 فدا ایثار نے کہا کہ ہر ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کا نام یوسف مستی خان کا فلسفہ ہے، وہ کینسر جیسے مہلک بیماری کے باوجود بھی عوامی حقوق کے لئے لڑتے رہیں، ان کو سرخ سلام ہو۔

پروگرام کے آخر میں مرکزی آفس سے  ہنزہ پریس کلب تک یوسف مستی خان کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لئے مشعل بردار ریلی بھی نکالی گئی اور شمعیں روشن کئے گئے۔