Menu

عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) نےغریب اور مزدور طبقے پر کورونا وائرس بحران کے اثرات سے نمٹنے کے لئے حکومت کی معاشی ریلیف پیکیج کو مسترد کردیا ہے ، کیونکہ یہ آج ملک کو درپیش چیلنج کی وسعت کو دور کرنے کے لئے ناکافی ہے۔

ایک مشترکہ بیان میں عوامی ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان ، جنرل سکریٹری اختر حسین ، ڈپٹی سیکرٹری عصمت شاہجان، سندھ کے صدر ڈاکٹر بخشل تھلہو ، کے پی کے صدر حیدر زمان اور پنجاب کے صدر عمار رشد نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے افراد کے ماہانہ وظیفہ میں صرف 1،000 ہزار روپے کا اضافہ ، اورایک کروڑ غریب گھرانوں کے لئے صرف 12000 روپے ہنگامی امداد ایک مذاق ہے۔

انہوں نے کہا کہ محنت کش طبقے کے گھرانوں کو 12000 روپے سے زیادہ کی ادائیگی کی ضرورت ہے، اور پاکستان کی سیاسی معیشت کی انتہائی خستہ حالی اور غریب لوگوں کی فوری ضرویات کو پیش نظر رکھتے ہوے ایک جامع اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو عام لوگوں کی ضروریات پوری کرتا ہو۔

بیان میں کہاگیا کہ “اے ڈبلیو پی کا یہ ماننا ہے کہ اس بحران کی وسعت اور شدت کو دیکھتے ہوئے، جس میں ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ محنت کش اپنے ذریعئہ معاش سے محروم ہوسکتے ہیں، اسی پیمانے پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ “

اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہئیے کہ وہ ڈیڑھ کروڑ غریب ترین گھرانوں کو تین ماہ تک بیس ہزار روپے کی بنیادی آمدنی کی ادائیگی کریں، تاکہ ان خاندانوں کے محنت کش اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے افراد کو وائرس سے بچانے اور بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئےگھر پر ہی رہ سکیں۔اس مالی اعانت کے لئے درکار فنڈ کو دیگر ریاستی اداروں اور محکموں کے غیر پیداواری اخراجات کو کم کرکے پیدا کرنا ہوگا، جن میں غیر جنگی دفاعی اخراجات بھی شامل ہیں۔

اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے فوری طور پر وسائل اور دولت کی ازسر نو تقسیم جیسے اقدامات پر زور دیا جس میں گریڈ 19 اور اس سے اوپر کے تمام افسران کی تنخواہوں میں 10 سے 20 فیصد کٹوتی ،بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں سے فنڈ کو صحت عامہ پر خرچ کرنا اور اسے بہتر بنانا قومی ترجیح ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی پیکیج میں تعمیرات کی صنعت اور برآمد کنندگان کو 200 ارب روپے بغیر کسی شرائط کی وضاحت کے امداد دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کے لئے کسی بھی قسم کی مالی امدادکو اس بحران کی مدت کے دوران مستقل اور کنٹریکٹ تمام ملازمین کے لئے چھٹی سمیت تنخواء کی ادائیگی کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہئے، تاکہ انہیں بے روزگاری اور مزید محرومی میں نہ ڈالا جائے۔

حکومت کو چاہئیے کہ وہ تمام ٹیکسٹائل اور گارمنٹ فیکٹریوں کے مزدوروں کو جنہیں نوکریوں سے نکالا گیا ہے، کی اجرت کا نصف حصہ برداشت کرے اور انہیں فوری طور پر نوکریوں پر بحال کریں۔ صنعت کاروں یا برآمد کنندگان کے ساتھ کسی بھی امداد کےمعاہدے کی بنیاد مزدوروں کی آمدنی اور صحت سے جوڑنا چاہئے۔

فیکٹریوں کو بند کرنے اور محنت کشوں کو نکالنے کی بجائے سامان تعیش و آسائش اور غیر ضروری اشیاء کی پیداوار اور ان پر وسائل کو خرچ کرنے کی بجائے صحت، ضروری طبی اور ذاتی حفاظتی آلات کی پیداوار کی طرف موڑنا چاہئے۔ جو مزدوروں کو اس بحران میں ملازمت کی تحفظ میں بھی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔

اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ ریلیف میں ‘مزدوروں’ کی تعریف کو وسیع کرنے اور اس میں گھریلو ملازمین، ریڑی والوں، خوانچہ فروشوں، زرعی شعبے کے اجرتی اور ہجرتی مزدوروں کو شامل کرنا ہوگا۔

حکومت کے امدادی منصوبے میں ‘غیر رسمی شعبے’ کے کارکنوں کی شناخت اور اس کی آڑ میں پیدا ہونے والی بے روزگاری کے حوالے سے کچھ مبہم اقدامات پیش کیے گئے ہیں جس میں کارکنوں کی شناخت اور ان کو ڈاکومینٹ کرنےکے لئے بڑے پیمانے پر عملی کام کی ضرورت ہے۔ اس عمل کے ذریعے ضرورت مند افراد کو رقم کی فوری منتقلی کے ساتھ ساتھ غیر رسمی شعبےمیں مزدوروں کو ڈاکو مینٹ کرنے اور آئندہ لیبر پالیسیوں کے لئے وسائل پیدا کرنے میں بھی مدد گارثابت ہو گا۔ اگر اس کام کو مؤثر طریقے سے انجام دیا گیا تو یہ بحران پاکستان کی عوامی خدمات اور تحفظ کےپروگرام کو مضبوط بنانے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔

قلیل مدتی اقدام کے طور پر حکومت تمام چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کی مدد کرکے ان کے ساتھ اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے تاکہ انہیں درمیانی مدت میں اپنا کام جاری ر کھنے کا اہل بنا سکے۔

اے ڈبلیو پی نے مطالبہ کیا کہ سود کی شرح کو مزید 300 بی پی ایس تک لایا جاہئے اور اسٹیٹ بینک کو چاہئیے کہ وہ بینکوں پر نظر رکھیں اور ایس ایم ایز کو سستی کریڈٹ کے حصول کو یقینی بنانئیں۔

اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ہنگامی اقدام کے طور پر دو ماہ کے لئے 500 یونٹ سے نیچے کے تمام یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کو منسوخ کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہنگامی مدت میں لوگوں کی گیس اور بجلی کی سہولت کی تنسیخ نہ ہو

اے ڈبلیو پی نے بجلی پیدا کرنے والے پرائیویٹ منصوبوں کو قومیانے کا بھی مطالبہ کیا کیونکہ آئی پی پی کوادائیگی کی وجہ سے حکومت کی مالی صلاحیت کمزور ہوگئی ہے۔

یہ بحران اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ایک نئے عمرانی معاہدے کے بارے میں سنجیدگی سےبحث و مباحثہ کا آغاز کیا جائے ۔ چونکہ نقل و حرکت اور پیداواری سرگرمیوں پر پابندیوں کی وجہ سے عالمی معاشی کساد بازاری کا آغاز ہوتا ہے، لہذا ہمیں ریاست کے ‘قومی سلامتی’ کے رجحان کو دوبارہ نئے زاویہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سنگاپور، چین، جنوبی کوریا دنیا میں اپنے بہتر صحت عامہ اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کی بدولت اس وبائی مرض سے سب سےمؤثر طریقے سے نمٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں

پاکستان میں صحت کے شعبے میں مجموعی قومی پیداوار سےجو بجٹ رکھا جاتا ہے اس کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے۔ ہمیں صحت کے شعبے کے کارکنوں، اسپتالوں، ٹیسٹنگ سسٹم، وینٹیلیٹروں، انتہائی نگہداشت کے یونٹوں، بیماریوں کی نگرانی کے نظام ، تیز رفتار رسپانس ٹیموں اور صحت کے دیگر اہم شعبوں میں سرمایہ کاری میں اربوں روپے کا اضافہ کرنا چاہئے۔

اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت حالیہ دنوں میں نجی رضاکارانہ کوششوں سے ہم آہنگی کرے جو امداد کی تقسیم میں کمزور طبقات کی مدد کریں۔

پارٹی اس بحران سے نمٹنے اور لوگوں کی جانوں کو تحفظ دینے کے لئے اور بڑے قرضوں کی معافی بشمول فوجی آمروں کے دور میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی اور ان سے نجات اور بین الاقوامی قرض دہندگان سے سنجیدہ بات چیت کرنے کی حکومت کی کسی بھی کوشش کی حمایت کرتی ہے ۔