میڈیا کے ذریعے دن رات حکمران اشرافیہ کے سرکس اور اقتدار کی کشمکش کو دکھانے کی بجائے اس غیر معمولی انسانی بحران کو اجاگرکیا جا ہے۔ یوسف مستی خان، بخشل تھلہو
پریس ریلیز
کراچی، 23 اگست، عوامی ورکرز پارٹی نے سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، سرائیکی وسیب، چترال، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں جاری مون سون کے نتیجے میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کی فوری میڈیا کوریج اور عوامی وسائل کا بندوبست کا مطالبہ کیا ہے۔
پارٹی رہنماوں نے کہا کہ وسیع پیمانے پر تباہی جو 2010 کے سیلاب کے برابر ہے ۔ انہوں نے ، کارپوریٹ میڈیا اور حکمران طبقے پر تنقید کی کہ انہوں نے سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے اپنا وقت اور وسائل کو وقف کرنے کی بجائے محلاتی سازشوں اور طاقت کے کھیل کو ترجیح دیتے رہے جس کی وجہ سے جانیں ضائع ہوتی رہیں اور قیمتی وقت اور وسائل ضائع ہوتے رہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے وفاقی صدر یوسف مستی خان اور جنرل سیکرٹری بخشل تھلہو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے تباہی اور انسانی جانوں کے نقصانات سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ہزاروں لوگ اب تک اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ لاکھوں اپنے گھروں سے بے گھر اور ذریعہ معاش سے محروم ہو چکے ہیں نقصانات انسانی سوچ سے کہیں زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تباہی کے اثرات قلیل مدت نہیں رہیں گے کیونکہ بلوچستان، سندھ اور سرائیکی وسیب کے پورے زرعی اور مویشی پالنے والے اضلاع پانی میں ڈوب گئے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں لوگو ان شہروںکی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جو پہلے ہی دوسرے علاقوں سے انتقال آبادی کے دباو کے شکار ہیں ۔
اے ڈبلیو پی اور دیگر ترقی پسندوں نے مسلسل متنبہ کیا ہے کہ بے لگام منافع خوری پر مبنی موجودہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام پورے پاکستان میں ماحولیاتی نظام کو تباہ کر رہا ہے۔ لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، کیوں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے مرکزی دھارے کے سیاست دانوں کے ساتھ مل کر بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ ان کی دلچسپی عوام کے حقیقی مسائل سے نہیں بلکہ صرف اقتدار پر قبضہ کے لئے جھگڑوں سے ہے۔
گلگت بلتستان، چترال اور کشمیر میں تیزی سے گلیشیئر پگھلنے سے پاکستان کے شمال میں موسم گرما میں پہلے کی نسبت سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ سندھ، سرائیکی وسیب اور بلوچستان میں 2010 کے تباہ کن سیلاب، سرمایہ دارانہ ‘ترقی’، جنگلات کی بے دریغ کٹائو، نے سیلاب کے محرکات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام گھمبیر صورتحال،موسمیاتی بحران اور ان کی بنیادی وجوہات کو اجاگر کرنے کے لئے نہ تو ذرائع ابلاغ کے پاس نہ جگہ ہے اور نہ احساس، اور نہ یہ مسائل مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے پر ہے۔ نتیجے کے طور پر، لاکھوں چھوٹے اور بے زمین کسان اور عام طور پر محنت کش عوام بھوک سے موت کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ وہ سیلاب میں اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں۔
اے ڈبلیو پی کی قیادت نے کہا ہے کہ ماحولیات کی تباہی طبقاتی استحصال اور پدرشاہانہ تسلط دونوں کی عکاسی کرتی ہے، اور اس نے پاکستان کی 150 ملین نوجوان آبادی کی اکثریت کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اگر جمود کی طاقت کو چیلنج نہیں کیا جاتا ہے تو انہیں ایک بھیانک مستقبل کا سامنا ہوگا۔
ان رہنماوں نے مطالبہ کیا کہ آبی ذخائر، جنگلات اور معدنیات کی بے دریغ لوٹ مار، ہاؤسنگ اسکیموں، فائیو سٹار ہوٹلوں، بڑے بڑے مارکیٹوں اور دیگر نیولبرل چکا چوند کی علامتوں کی بے لگام تعمیرات کو روکنا چاہیے۔
عوامی ورکرز پارٹی مختلیف علاقوں میں موجود تمام ترقی پسند، عوام دوست قوتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایک ایسی عوامی سیاسی تحریک بنائیں جو موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے تباہ کن اثرات کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
پارٹی معاشرے کے تمام طبقات سے اپیل کرتی ہے کہ وہ سیلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کی فوری رہائش، خوراک، صحت اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر جو کچھ کر سکتے ہیں، کریں۔ ہرقسم کی امداد کو متحرک کیا جانا چاہیے، اور حکومت کو چاہیے کہ وہ عوامی رقوم کو غیر پیداواری اور اشرافیہ کے مفادات پر مبنی مقاصد سے ہٹا کر سیلاب زدگان کی نجات کی طرف منتقل کریں۔ ‘بین الاقوامی ڈونر کانفرنس’ کا اعلان اس طرح کی آفات کے لیے محض روائتی ردعمل کو ظاہرکرتا ہے، جب کہ ریاست کی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی تمام ترقی پسند قوتوں کو متحرک کرنے اور پاکستان کے نوجوانوں کو بالعموم نفرت کی سیاست سے دور رکھنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ حقیقی معنوں میں انہیں ایک بھیانک مستقبل سے بچایا جا سکے۔