عوامی ورکرز پارٹی کریمہ بلوچ کی میت کو اغوا کرنے اور عوام کو ان کی تدفین میں شرکت سے روکنے کی شدید مذمت کرتی ہے

پریس ریلز

کراچی: عوامی ورکرز پارٹی کریمہ بلوچ کی میت پہ قبضہ اور لوگوں کو ان کی تدفین میں شرکت سے روکنے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان ، سیکریٹری جنرل اختر حسین، ڈپٹی سیکریٹری عصمت شاہجہان، آرگنائزنگ سیکریٹری جاوید اختر،  خیبر پختونخوا ہ کے صدر اخوند زادہ حیدر زمان، بلوچستان کے صدر یوسف کاکڑ، سندھ کے صدر بخشل تھلہو اور جنرل سیکریٹری جاوید راجپر، سرائیکی وسیب کے صدر ٖفرحت عباس، پنجاب کے صدر عمار رشید، گلگت-بلتستان کے رہنماء بابا جان ، عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے صدر ڈاکٹر افتخار نے اپنے مشترکہ بیان میں کریمہ بلوچ کی میت کو اپنے قبضے میں رکھنے اور اس کی بے حرمتی کرنے کے سیاہ عمل کی سخت ترین  الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ کریمہ بلوچ کی جسد خاکی کے ساتھہ حکمرانوں کے رویہ کریمہ کے قاتلوں کی نشاندہی کر دی ہے۔

https://www.facebook.com/BycKhi/videos/856757124867312

کریمہ بلوچ کی لاش کو  کراچی ائرپورٹ سے اغوا کیا گیا، ان کے آبائ ضلع میں کرفیو نافذ کیا گیا، انٹرنیٹ اور تمام موبائل سروسز معطل کر دی گئیں ، کریمہ بلوچ کا استقبال کرنے اور آخری رسومات میں شرکت کرنے سے عوام کو روک دیا گیا۔ افسوس کہ کسی میڈیا ہاؤس کی ہمت نہیں  ہوئی کہ اس ننگی بربریت کے بارے میں ایک ٹکر بھی چلائے۔ حتی کہ حکمران طبقات سے تعلق رکھنے والے کسی سیاستدان نے کوئ بیان  تک جاری نہیں کیا ۔

ان رہنمائوں نے کہا کہ اس غم اور غصہ کی  گھڑی میں پارٹی کریمہ بلوچ کے ورثا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور ان کو انصاف ملنے تک ان کےساتھ کھڑی رہے گی.

پارٹی رہنماوں کا کہنا تھا کہ یہ عمل انتہائی شرمناک ہے کہ پاکستانی ریاست لاشوں سے خوفزدہ ہے۔ انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ اس سے قبل  حسن ناصر ،   ذوالفیقار علی بھٹو   اوراکبر بگٹی کی نعشوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔ اب   ریاست نے کریمہ بلوچ کی لاش  کو زبردستی قبضے  میں لیا اور ان کے آبائی شہر  تمپ میں انٹرنیٹ کو معطل کیا اور  اس کے آخری رسومات سے قبل اس علاقے کو لاک ڈاؤن میں ڈال دیا۔

انہوں نے پاکستانی حکمرانوں کے اس عمل کو برطانوی راج سے تشبیح دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حکمران اپنے سامراجی آقاوں کے روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مخالفین کی لاشیں چوری اور غائب کرنے کا گھناؤنا عمل سامراجی اور نوآبادیاتی ریاستوں کی  میراث ہے۔ یہ عمل کانگو کے انقلابی رہنماء پٹریس لو ممبا اور بر صغیر میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کئے جانے والے روئیے کی یاد دلاتا ہے۔

ایسے ہتھکنڈوں کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح ان عظیم انقلابیوں کی شہادت سے ابھرنے والے عوامی جذبات کو جبر کے ذریعہ روکا جائے۔ لیکن ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے افراد  کو طبعی طور پر تو فنا کیا جا سکتا ہے لیکن وہ عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔ وہ کہانیوں ، لوک داستانوں ، گانوں، اشعار اور مزاحمتی تحریکوں میں دکھائی دیتے ہیں۔

یوسف مستی خان نے سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ایک طرف بلوچ نوجوانوں پر اس طرح کے مصائب اور جبر  کے پہاڑ توڑنے  کے ساتھ ساتھ اب ان کو اپنی لاشوں پر ماتم کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتی ہے اور دوسری جانب ان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اس ظلم و جبر پر مبنی ریاست کے وفادار بنیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ جو ریاست “اسلامی” ہونے کا دعوی کرتی ہے وہ اپنے شہری کی لاش کو احترام سے دفنانے تک کے حق سے محروم رکھتی ہے۔ جس وقت بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑکا جا رہا ہے۔

اس ضمن میں سندہ پارٹی نے کراچی پارٹی اور وفاقی صدر کامریڈ یوسف مستی خان کے کردار کو بھی سراہا ۔ انہوں  نے  کہا کہ پہلے سندھ اور بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کو جبری طور پر اغوا کیا جاتا تھا اب تو موت کے بعد میتیں بھی محفوظ نہیں۔ عوامی ورکرز پارٹی اس بربریت کو ایک بزدلانہ حرکت سمجھتی  ہے۔.

 حیدر زمان نے  کہا کہ ہم  اہل اقتدار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کریمہ بلوچ کے  خاندان کو انصاف مہیا کرے اور بلوچستان میں ریاستی دہشت گردی بند کرے۔

عوامی ورکرز پارٹی  پینجاب کے سابق صدر اور استاد عاصم سجاد اختر نے کہا کہ   لاش تو دفنا دو گے لیکن نظریہ کیسے دفناؤ گے؟  اکبر بگٹی کو تو قتل کر کے دفنا دیا تھا اب کریمہ بلوچ کو قتل کرا کر اس کی لاش پر بھی قابض ہو گئے ہو لیکن اس نظریے کو کیسے قتل کرو گے جس کا پرچار کریمہ بلوچ کرتی تھی۔

عوامی ورکرز پارٹی  کے رہنماوں نے خبردار کیا  کہ  حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ وہ سات دہائیوں سے جاری بلوچ  قومی تحریک اور امن و آزادی کی آوازوں کو طاقت اور دہشت گردی کے ذریعے دبا نہیں پائی ہے۔  خواتین  اور نوجوانوں کی ایک نئی نسل جدوجہد کی نئی راہوں  پر چلنے  کے لئے کریمہ کے نقش قدم پر رخت سفر باندھ چکی ہے۔ اب کسی بھی طرح کے ریاستی جبر اور دہشت گردی سے اس کاروان کو روکا نہیں جا سکتا۔

لہٰذا حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینا چاہئے اور بلوچستان میں  فوجی آپریشن اور ریاستی و گماشتہ دہشت گردی کو فل فور بند کرکے گفت شنید کے ذریعے لوگوں کے ا حساس محرومی، قومی استحصال اور غربت  و دیگر  مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

انہوں نے کنیڈا، سویڈن اور پاکستان کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کریمہ بلوچ ، ساجد حسین  اور عارف  بلوچ کے قتل  کی غیر جانبدار تحققات کریں اور ان واقعات میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔ 

جاری کردہ

سیکریٹری اطلاعات عوامی ورکرز پارٹ