پریس ریلیز
عوامی ورکرز پارٹی نےاپنے انقلابی رہنماؤں بابا جان ، علیم خان ، افتخار کربلائی اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کو عوام اور تما ترقی پسند مزاحمتی قوتوں کی فتح قرار دیاہے۔
اپنے مشترکہ بیان میں عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر یوسف مستی خان ، جنرل سکریٹری اختر حسین ، ڈپٹی سیکرٹری عصمت شاہجہاں، آرگنائزنگ سیکریٹری جاوید اختر، بانی صدر عابد حسن منٹو، فیڈرل کمیٹی کےا راکنن ڈاکٹر فرزانہ باری ، شہاب خٹک ، سندھ کے صدر بخشل تھلہو ، پنجاب کے صدر عمار رشید ، پختونخواہ کے صدر حیدر زمان ، سرائیکی وسیب کے صدر فرحت عباس اور بلوچستان کے صدر یوسف کاکڑ ، عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے رہنماوں محمد ہاشمی، ڈاکٹر ذاکر حسین، پرویز فتح ، جموں و کشمیر عوامی ورکرز پارٹی کے چئرمین نثار شاہ اور دیگر نے گلگت-بلتستان کے عوام اوربالخصوص ہنزہ کے عوام کو مبارکباد دی ہے جنہوں نے نہایت بہادری کے ساتھ ان رہنماؤں کی آزادی کے لئے گزشتہ نو سالوں میں جدوجہد کیں ۔ انہوں نے ان تمام ترقی پسند ، بائیں بازو اور مزاحمتی قوتوں کا بھی شکریہ ادا کیا جو ان سارے سالوں تک ان ضمیر کے قیدیوں کے ساتھ روا رکھی گئی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔
بابا جان اور اس کے ساتھیوں کونو طویل سالوں کے بعد رہا کرنا اس بات کو ثابت کرتی ہے اور ہمیں یاد دہانی کرتی ہے کہ حد درجہ ظلم و جبر سے قطع نظر ، ہمیشہ حق اور انصاف ہی کی فتح اور بول بالا ہوتا ہے۔ بابا جان اور اس کے ساتھیوں کو دہشت گردی کے قوانین کے تحت سزا سنائی گئی اور انھیں دہشت گرد کا لیبل لگا دیا اور انہیں لوگوں کے لئے خطرہ قرار دیا گیا ۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں عطاٰآباد کے آفات سے متاثرہ افراد کے حق میں آواز بلند کرنے اور اپنے وسائل پر گلگت-بلتستان کے محنت کش لوگوں کے حقوق کے لئے بولنے کی پاداش میں سزا دی جارہی ہے۔ ان کی قید ناحق گلگت بلتستان میں فرسودہ ، عوام دشمن ، نوآبادیاتی نظام کی عکاسی تھی۔ آج انھیں رہا کرکے ریاست نے خود ہی ان سچائیوں کا اعتراف کیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بابا جان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی میں حکام کے رویئے میں کسی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ گلگت-بلتستان کے نوجوانوں، بالخصوص اسیران کے خاندانوں، اور ہنزہ کے عوام کا تاریخی دھرنا اور اے ڈبلیو پی اور اے ڈبلیو پی جی بی کے کارکنوں کی جدوجہد اور ملک گیر احتجاج ، بائیں بازو، قوم پرست اور دیگرجماعتوں کے ہمدرد رہنماؤں اور کارکنوں، عالمی انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی، تنظیموں اور دنیا بھر کے دانشوروں، اراکین پارلیمن اور وسیع تر محنت کشوں کی حمایت اوریکجہتی کا نتیجہ ہے۔
ان رہنماؤں نے کہا کہ ہم احسان علی ایڈووکیٹ، امجد حسین ایڈووکیٹ اور دیگر وکلاء کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نےرضاکارانہ طور پربابا جان اور دیگر اسیروں کے مقدمات کی مختلف عدالتوں میں پیروی کرتے رہے ہیں۔
“ہم مختلف جماعتوں کے اراکین اسمبلئ کی حمایت کو سراہتے ہیں جو ان کی رہائی کے لئے مستقل طور پر کھڑے رہے ، خاص طور پر سابق سینیٹرز افراسیاب خٹک ، فرحت اللہ بابر اور عثمان کاکڑ جنہوں نے بابا جان کی قید کو مستقل طور پر سینیٹ ، میڈیا اور عوامی حلقوں میں اجاگرکیا۔
“ہم حقوق انسانی کمیشن پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے مستقل مزاجی کے ساتھ بابا جان اور دیگر سیاسی قیدیوں کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کی دستاویزی رپورٹ شائع کی اور انہیں ناجائز قرار دیا ۔ ہم دوسرے بائیں بازو ، ترقی پسند اور قوم پرست گروہوں کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے بابا جان کی آزادی کے لئے سخت مہم چلائی۔
“آج ہم مرحومہ عاصمہ جہانگیر کو بھی یاد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ، جنھوں نے گلگت-بلتستان میں طویل عرصے سے بابا جان کے لئے اور انو آبادیاتی استحصالی نظام کے خلاف آخرہ سانس تک آواز بلند کرتی رہیں ۔ ہم پرو فیسر نوم چومسکی اور طارق علی جیسے بائیں بازو کے بین الاقوامی رہنماؤں کی خدمات کا بھی اعتراف کرتے ہیں جنھوں نے ان کی رہائی کی درخواست کی تھی۔ ہم ان لاتعداد نوجوان شعراء ، گلوکاروں اور موسیقاروں کے بھی مشکور ہیں جنہوں نے اپنا تخلیقی فن بابا جان اور ان کی جدوجہد کے لئے وقف کیا اور نوجوانوں کے اندر انقلابی جذبہ کو بیدار کیا۔
“آج جب ہم بابا جان کی رہائی کا جشن مناتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چائیے کہ بابا جان اور اس کے ساتھیوں نے اپنہ زندگی کے قیمتی دس سال ایک ناکردہ جرم کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ان کی رہائی کوابھی مکمل انصاف نہیں کہا جاسکتاہے۔
“یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ بابا جان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بے بنیاد الزامات کو ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کی سزا معطل کیا گیا ہے ، تاکہ ریاست جب چاہیں ان کارکنوں کے خلاف ان الزامات کو استعمال کرسکیں۔ ہم سیاسی کارکنوں اور مزاحمتی قوتقں کے خلاف دہشت گردی کے کالے قوانین کی بے دریغ استعمال اور ان کو مذاکرات کا ایک آلہ کے طور پر استعمال کی مذمت کرتے ہیں۔ اور ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ گلگت-بلتستان اور پاکستان کی عدالتوں میں سیاسی کارکنوں کے خلاف ان جھوٹے الزامات ، اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے استعمال کے خلاف قانونی اور سیاسی جنگ جاری رکھیں گے، اور گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں نو آبادیاتی آمرانہ غیر جمہوری حکمرانی کے ڈھانچے کا خاتمہ کریں گے۔”
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماوں نے کہا کہ آج ہم گلگت-بلتستان کے محنت کش عوام کے ہیرو کی اس کے لوگوں میں واپسی کا جشن مناتے ہیں۔ آج ، ہم ایک طویل رات کے اندھیرے کے بعد سخت محنت سے جیتنے والی امید کی صبح کا جشن مناتے ہیں۔
بابا جان اور ان کے ساتھیوں کو سرخ سلام۔
جاری کردہ:
فرمان علی
سیکریٹری انفارمیشن
عوامی ورکرز پارٹی