نہیں دریا کو انصاف


تحریر: ڈاکٹر بخشل تھلہو


“ماحولیاتی تبدیلی نے ہمارے اور انسانی جڑت کے سامنے ایک سوال پیدا کر دیا ہے اور وہ تبدیلی جس کائناتیت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔۔۔وہ کسی تباہ کاری (سیلاب اور خشک سالی) کے مشترکہ احساس سے بھی زیادہ کائناتی ہے”دپیش چکرابارتی (1)

یورپ اس وقت جس خشک سالی کا تجربی کر رہا ہے اس کی مثال گزشتہ 500 سالوں میں بھی نہیں ملتی (2)، اور جنوبی ایشیا بھی بارشوں اور سیلابوں میں نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ جس کا سبب عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔

عالمی ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے نتائج یا اثرات بھگتنے میں پاکستان کبھی آٹھویں تو کبھی پانچویں نمبر پر متاثر ہونے والا ملک ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلابوں کی تباہی کے اصل اعدادوشمار تو کسی کے پاس نہیں لیکن اس کے باوجود کشمیر، گلگت بلتستان اور پختونخوا میں گلیشرز کے پگلاو اور اس کے نتیجے میں جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ، سے نشیبی علاقوں میں آبادی، پلوں، شاہراہوں، باغات اور کچھ انسانی جانوں کے نقصان کے بعد بہت زیادہ نقصان سرائیکی وسیب، بلوچستان اور سندھ کو ہوا ہے۔ سرائیکی وسیب کوہ سلیمان کے قریب دامان علاقے (ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان) میں پانچ لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ تونسہ میں 75 گاؤں ڈوب گئے ہیں، لوگوں کی مویشی اور فصل دونوں پانی میں بہہ گئے ہیں۔

سب سے زیادہ جانی نقصان بلوچستان میں ہوا ہے جہاں اندازے کے مطابق 250 لوگ ہلاک ہوگئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں گھر تباہ ہوگئے ہیں۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد وشمار کے مطابق سندھ میں 16 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، 50 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے اور 14 لاکھ ایکڑ زمین پر اگایا گیا فصل تباہ ہوگیا ہے۔ قریباً 4 لاکھ گھر ڈوب گئے ہیں اور 231 لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ سندھ کے 22 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے ہیں۔ (3)

ان بارشوں اور سیلاب میں یہ اعدادوشمار بڑھنے ہی ہیں، جولائی سے ستمبر تک پاکستان میں مون سون بارشیں اوسطاً 140.8 ملی میٹر پڑتی ہیں مگر صرف اس سال کے جولائی کو ہی دیکھیں (اور اگست کی بارشوں کے بڑے دورانیہ کو بھی چھوڑتے ہیں) تو معلوم ہوتا ہے کہ 1961 سے اوسط بارشیں 63.1 ملی میٹر کی نسبت میں 177.6 ملی میٹر بارشیں ھوئیں ہیں۔ یعنی کہ 180 مرتبہ زیادہ بارشیں۔ (4) (امکانات ہیں کہ 26 اگست کے بعد حالیہ اسپیل کی شدت کم ہو جائے)۔

مگر ہماری کارپوریٹ میڈیا کا مرکز شہباز گل کی گرفتاری، بھوک ہڑتال اور جوس پینا یا نہ پینا ٹھرا، جبکہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ایک طرف موجودہ تباہی کو قدرتی آفت کہہ کر اپنی نااہلی اور بدانتظامی کو چھپا رہی ہیں، دوسری طرف صرف بیانات دینے اور کسی متاثر سے تصویر کھنچوانے تک محدود ہیں۔ باقی بچا کنٹونمنٹ، اس کی تو موجیں پہلے سی ھی ھوتی ہیں. ایک تو وہ ڈوبتے نہیں، اگر ڈوبے بھی تو وہ مرتے نہیں ہیں۔ کیونکہ ڈوبتے مرتے صرف عام لوگ ہی ہیں۔ کنٹونمنٹ والے تو ڈوبتے مرنے والوں کو دورانِ فضائی دورے دیکھتے ہوئے کسی افسوسناک حادثے کا شکار بھی ہو جائیں تو وہ شہید کہلاتے ہیں۔

یہ تمام تباہی پہلی ہے اور نہ آخری۔ ہم 2010- 2011 میں بھی ڈوبے تھے اور کروڑوں کی تعداد میں دربدر ہوئے تھے۔ 2007 میں سندھ اور بلوچستان کو ایک سمندری طوفان (سائیکلون) ٹکرایا تھا، جس میں 25 لاکھ لوگ متاثر اور 330 مر گئے تھے۔ ایسے ہی حالیہ تباہی قدرتی ہے نہ اتفاقی۔ 11 سال قبل مونیرل مرزا جیسے لوگوں نے اعدادوشمار کے ذریعے پیشن گوئی کی تھی کہ جنوبی ایشیا کی صورتحال آنے والی دہائی میں کیا ہوگی (5)۔ چار جولائی کو پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کی پیشگوئیاں بھی سامنے ہیں (6)۔ اس سے قبل عالمی ماہرین ماحولیات بھی کہہ چکے تھے کہ ہندی، عربی سمندر میں بڑھتے ہوے عالمء درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں خطرناک بارشیں آ سکتی ہیں۔۔۔اس ماہ 9 اگست کو ‘جنوبی ایشیا اور ماحولیاتی خطرات’ کے عنوان سے ایک مقرر نے بتایا کہ “سارک (سائوتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن) ممالک ماحولیاتی خطرے میں ہیں کیونکہ پانی کے بحران، خشک سالی، بارشوں، سیلابوں اور سمندری طوفانوں کو صرف ملکی سرحدوں سے نہیں روکا جا سکتا” (7).

اس کے باوجود جوہری طاقت رکھنے والے ملک کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی تیاری کی حالت وہ تھی جو متاثرہ خاندانوں کی زبان پر ہے۔ امریکہ سمیت کچھ دیگر ممالک کی جانب سے امداد آئی ہے اور آئے گی بھی لیکن سرکاری ویب سائٹس پر خبر شایع کرنے کیلیے ان کے پاس تقسیم کرنے کیلیے کچھ خیمے اور مچھر دانیاں تھی اور ہیں۔ ایسے عوام ڈوبتی ہے اور جیبیں حکمرانوں کی بھرتی ہیں۔

کہتے ہیں کہ سیلاب کے دوران ایک دوسرے کے مخالف، قاتل جانور، اور کیڑے مکوڑے کسی لکڑی یا پتوں پر مل کر تیرتے خود کو بچاتے ہیں مگر حال ہی میں حیدرآباد صدر میں ہونے والے واقعہ نے بتایا کہ کسی بڑی انسانی تباہی کے دوران بھی ہم حیوانی دنیا کی سطح سے بھی نیچے گر سکتے ہیں۔

پاکستان اور جنوبی ایشیا کے نوجوانوں کو سمجھنا ہو گا کہ وہ شناخت (رنگ، مذہب، نسل ، ذات اور برادری) کی بنیاد پر ہونے والی تنگ نظر سیاست کو طاقت دیگا یا تمام پسے ہوئے اور مظلوم لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے اور دنیا کیلیے نئے دور کی ترقی پسند ، پدرشاہی مخالف، قوم، عوام اور ماحول دوست سیاست کی نئی مثالیں قائم کرے گا۔ کیونکہ ہر وہ سیاست جو مزدوروں، پسے ہوئے لوگوں اور عام کو آپس میں لڑائے وہ نجات دہندہ نہیں ہوسکتی۔ نفرت اور تعصب سے بدلہ لیا جاسکتا ہے لیکن نئے انسان اور نئے سماج کی بنیادیں نہیں پڑ سکتی۔ نوجوانوں کے اوپر تاریخ کا بڑا وزن ھے اور اسی کی اھمیت عالمی بھی ہے. جس کی طرف عالمی دانشوروں کی شاید ابھی تک نظر نہیں بھی پڑتی ہوگی۔

مگر ہمارے ساتھی اور رہنما عاصم سجاد نے واجب طور پر اپنی نئی کتاب میں اس حقیقت کو تین اسباب میں بتا کر واضح کیا ہے۔ پہلا سبب: دنیا کی اکثریتی آبادی آج بھی ان ہی ممالک میں رہتی ہے جو نو آبادیاتی قبضے کے شکار رہے اور خاص کر کے ایشیا اور افریکا میں ان کی بڑی تعداد تیزی سے بڑھتے شہروں میں مرکوز ہو رہی ہے۔

دوسرا سبب: ایشیا اور افریکا کی ان ممالک میں نوجوانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سماج کا وہ حصہ (نوجوان) جسمانی اور ڈجیٹل دنیا میں بہت تیزی سے آپس میں ملنے کی طاقت رکھتا ہے اور دوسری اقوام اور علاقوں کے لوگوں سے مل کر ایک ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کی ایسی بھرپور تعداد ان سماجوں میں آنے والی دہائیوں میں سیاسی ماحول پر بہت اثرانداز ہوگی۔

تیسرا اور آخری سبب: قریباً تمام سائنسی پیشگوئیوں کے مطابق ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ کے سب سے زیادہ نقصانکار اثرات (سیلاب، خشک سالی وغیرہ) زیادہ مشرقی اور جنوبی ایشیا کے اس ہی حصے (کوریا اور پاکستان تک) پر پڑیں گے جہاں پر نوجوانوں کا بہت بڑا حصہ رہتا ہے۔

شروع دن سے پاکستان کے اندر طبقاتی، قومی، صنفی اور ماحولیاتی سوال کی اکائی اور اس اکائی کی روشنی میں عوامی جدوجہد کو منظم کرنے کی بات اور اس پر عمل کرتی آئی ہے۔ ہمارا ماننا رھا ہے کہ ان تمام سوالوں کے باھمی جدلی رشتے کو نہ سمجھنے سے کسی ہمع گیر سیاست کے بجائے تشکیک پسند (Agnostic) کی طرح کبھی ایک سوال پر، کبھی دوسرے سوال پر سیاست، اس طرح کرنے پر مجبور ھونگے کہ ایک سوال کا دوسرے سوال سے عملی تعلق ہی نہیں رہے گا، ایسی سیاست کا فائدہ موجودہ ناھموار نظام اور نفرت کی سیاست کو ہی ہونا ہے۔


حوالاجات:

۱۔ The struggle for hegemony in Pakistan by Aasim Sajjad Akhtar 2022 p#34.

۳۔ Europe is experiencing its worst drought in at least 500 years by Emma Newburger.

۴۔ Homeless, displaced, devastated: People in Pakistan’s flood-hit Sindh narrate tales of horror & loss by Mir Keeryo. http://www.pmd.gov.pk/…/Pakistan_Monthly_Climate…

5. Climate change, flooding in South Asia and implications by Monirul Mirza

6. https://www.pmd.gov.pk/en/assets/monsoon-2022/JAS_2022.pdf.

7. ‘Climate Change in South Asia a wake-up call for SAARC’ Mehr Kashif Younis

8. The struggle for hegemony in Pakistan by Aasim Sajjad Akhtar 2022 p#06

Ali

Awami Workers Party is a Left-wing revolutionary party of the working class, working people. peasants, women, youth, students and marginalised communities. It strives to bring about structural changes in society set up an egalitarian society based on social justice, equality, and free from all kinds of exploitation and discrimination on the basis of faith, religion, class, nationality, gender and colour. 

Tags: