اسلام آباد، یکم فروری 2022: عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) نے پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ شدید مہنگائی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان بل کی منظوری کے لیے پی ٹی آئی حکومت اور پاکستان کے حکمران طبقوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس سے سماجی و سیاسی بحران میں شدت آئے گی۔
صدارتی نظام کے لیے جس طرح سے ’مقبول‘ مطالبات سامنے آرہے ہیں اس سے اسٹیبلشمنٹ پر مبنی نظام کے شدید تضادات کی تصدیق ہوتی ہے اور جمہوری قوتوں کو ہر قیمت پر اس کی مزاحمت کرنی چاہیے۔
اسلام آباد میں پارٹی کی دو روزہ فیڈرل کمیٹی کے اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ ایک بیان میں اے ڈبلیو پی کے جنرل سیکرٹری اختر حسین، نائب صدر عابدہ چوہدری، ڈپٹی جنرل سیکرٹری عصمت شاہجہان، اے ڈبلیو پی سندھ کے صدر بخشل تھلہو، پنجاب کے صدر عمار رشید، خیبر پختونخوا کے صدر حیدر زمان ، سرائیکی وسیب کے صدر فرحت عباس اور آرگنائزنگ سیکریٹری جاوید اختر نے کہا کہ ملک کو فوج، عدالتی، مذہبی اور کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے مکمل تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، جس کی مثال موجودہ حکومت کا نو لبرل مالیاتی اداروں اور سامراجی قوتوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے، جس کے بوجھ مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں، خواتین اور مظلوم قومیتوں کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں ۔
اجلاس میں ،ظفر اقبال چوہدری، حمزہ ورک، صبا والدین صبا ، گلگت بلتستان کے رہنما بابا جان اور جموں و کشمیر کے چیئرمین نثار شاہ، ڈاکٹر فرزانہ باری، ڈاکٹر عاصم سجاد اختر، شہاب خٹک، عالیہ امیرعلی، شازیہ خان، شفیق الماس، دلاور عباس صدیقی سمیت دیگر نے بھی شرکت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں نام نہاد ‘تزویراتی گہرائی’ حاصل کرنے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ‘کامیابی’ پشتون اور بلوچ سرحدی علاقوں میں محنت کش عوام کے امن و سکون کو تباہ کر رہی ہے جہاں تحریک طالبان پاکستان کے دوبارہ ابھرنے اور سیاسی اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کو قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
دریں اثناء ریاستی اداروں کے اہلکار بلا استثنیٰ جبری گمشدگی جیسے مذموم طریقوں میں مصروف ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کی قیادت نے تمام ترقی پسند، جمہوری، سیکولر، حقوق نسواں اور مظلوم نسلی وقوم پرست گروہوں پر زور دیا کہ وہ بوسیدہ، فرسودہ سیاسی،معاشی نظام کے خلاف متحد ہو جائیں جو عدم مساوات، پدرشاہانہ نظام اور مذہبی انتہا پسندی کو جنم دیتا ہے اور ایک منصفانہ، مساوات پر مبنی معاشرے کی تعمیر کے لیے جدوجہد کریں ۔ اس سلسلے میں اے ڈبلیو پی نے آئندہ بلدیاتی انتخابات کے لیے بائیں بازو کے متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم کی تجویز پیش کی ہے۔
پارٹی کے رہنماوں نے کہا کہ پارلیمینٹ کے ایوان بالا میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی اکثریت کے باوجود اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی حالیہ منظوری اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں کسی ٹھوس پروگرام کے بجائے ‘الیکٹ ایبلز’ کی بنیاد پر پارلیمانی سیاست کو تشکیل دیتے ہیں۔
پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں، دانشور اور کارپوریٹ میڈیا ساختی تبدیلیوں کے لیے محنت کش عوام کو متحرک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت بھی اپنے پیشروؤں کی طرح آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ جو منظم طریقے سے لوگوں کو ان کی زمینوں اور وسائل سے محروم کر رہا ہے جووسیع پیمانے پر سماجی بحرانوں کو بڑھا رہا ہے اور محنت کش طبقے، خواتین، مذہبی اقلیتوں اور معاشرے کے سب سے زیادہ پسماندہ گروہوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔خاص طور پر مذہبی انتہا پسند اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر عوام کے اندر اشتعال انگیز جذبات پیدا کر رہے ہیں اور حکمران طبقے کے جبر، استحصال اور معاشی مشکلات پر اپنا غصہ نکالنے کے بجائے اپنی بندوقوں کا رخ مذہبی، نسلی اور صنفی اقلیتوں کی طرف موڑ رہے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکمرانی اس بات کی جھلک پیش کرتی ہے کہ اگر حقیقی ترقی پسند متبادل کو فروغ نہ دیا گیا تو پاکستان میں کیا ہو سکتا ہے۔ طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے سے تین کروڑ افغان عوام قحط کا شکار ہیں۔ لوگ اپنا سامان ، جسمانی اعظااور بچے بیچنے پر مجبور ہیں۔ بین الاقوامی طاقتوں نے وہاں کے بے بس لوگوں کو جنونی طالبان حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
پاکستان میں فوری بحران وقت کے ساتھ ساتھ بڑھیں گے اور پاکستان کے 230 ملین لوگوں کی نوجوان اکثریت کے لیے مستقبل میں نابرابری اور ناانصافی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
لاہور میں، رئیل اسٹیٹ مافیا ریاستی حکام کے ساتھ ملی بھگت سے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے لوگوں کو اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے، جو کہ قدرتی ماحول کے لیے مکمل طور پر تباہ کن ‘ترقی’ کا خیالی پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔
بلوچستان، سرائیکی علاقوں اور گلگت بلتستان میں مقامی لوگوں کے زمینوں کو ہتھیانے اور معدنیات اور آبی وسائل پر قبضے کا ایسا ہی عمل جاری ہے۔ ایک طرف حکومت ج درخت لگانے کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری طرف بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی، ساحلی ڈیلٹا کی تباہی اور دیگر ماحولیاتی تباہ کن پالیسیوں میں مصروف ہے۔ ان سب پالیسوں کو اکثر اعلیٰ عدالتوں سے تحفظ فراہم کی جاتی ہے۔
اے ڈبلیو پی نے لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی جماعتوں کا احیاء ہونے اور اقتدار میں آنے کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی ، خاص طور پر چلی میں سابق طالب علم رہنما گیبریل بورک کے صدر منتخب ہونے پر اطمنان کا اظہار کیا ۔ پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ پاکستانی بائیں بازو کے احیاء سے ہی سیکوریٹی ریاست کو عوام دوست ملک میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جہاں علی وزیر جیسے منتخب نمائندے اقتدار میں سچ بولنے پر جیلوں میں بند رہنے کے بجائے ملک کی قیادت کریں۔ اے ڈبلیو پی نے تیسری وفاقی کانگریس 12-13 مارچ 2022 کو لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی قیادت اس موقع کو وسیع تر ترقی پسند قوتوں کو اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کرے گی تاکہ اسٹیبلشمنٹ، مرکزی دھارے کی جماعتوں، کارپوریٹ لابیوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف اجتماعی جدوجہد کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔