ہریالی کو آنکھیں ترسیں بگیا لہو لہان
پیار کے گیت سناؤں کس کو شہر ہوا ویران
– حبیب جالب
گزشتہ چند برسوں سے عوامی ورکرز پارٹی کئی دفعہ دہشت گرد حملوں کی مذمت کر چکی ہے اور قیمتی جانوں کے ضیا ع پر ماتم بھی۔ آج پھر ہم شکستہ دل ایک نئے سانحہ پر سوگ منا رہے ہیں اور اس بربریت کی بھر پورمذمت کرتے ہیں ۔
لاہور کے گلشن اقبال باغ میں ایک خودکش حملے میں بہتر(۷۲) افراد ہلاک اور قریباََ تین سو (۳۰۰) لوگ زخمی ہوئے۔ ان میں عورتیں، بچے اور مرد سب شامل ہیں۔ یہ سانحہ ملک کے ایسے شہرمیں ہوا ہے جہاں کی اشرافیہ اور امیرطبقات کی حفاظت کے لیے ان کے گھروں کے باہر پرائیوٹ سکیورٹی گارڈ ز کی فوجیں موجود ہوتی ہیں اور ان کی تفریح کے بندوبست کے لیے پرائیوٹ کلب، جمخانے، اور گالف کورس موجود ہیں۔ مگر باقی عوام پرائیوٹ سکیورٹی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ دیگر لوازماتِ زندگی سے بھی محروم ہے۔ ایسے شہر میں گلشن اقبال جیسے پارک کسی حد تک عوام کی تفریح کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پبلک پارک ایک چھوٹی سی جنت کی مانندہوتا ہے جہاں محنت کش اور مڈل کلاس طبقات کے گھرانے بچوں، ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی اوردیگر اہلہ خانہ کے ساتھ آجاسکتے ہیں، کھلی فضا میں کھیل کود سکتے ہیں، پکنک منا سکتے ہیں۔ کل رات اسی باغ میں پھولوں جیسے بچوں کوسفاکانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی جانیں ضائع ہو گئیں اور زندہ رہ جانے والے چاہنے والوں کو عمر بھر کا سوگ ملا۔ ان کے درد اور غم کے بیان کے لیے الفاظ ناکافی ہیں۔ ہمارا دل مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کے لیے خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مگر لگتا نہیں کہ ریاست اور حکمران پارٹیاں اس بات کا اعتراف کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اس مسئلے کے پیچھے ان کا بھی ہاتھ ہے۔ جس آگ کو فاٹا، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور دیگر علاقوں میں یہ بھڑکا تے رہے ہیں اب یہ آگ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ مسلم لیگ کو اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ یہ آگ اب مسلم لیگ کے گڑھ شہر لاہور تک پہنچ گئی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی اس حملے کی مذمت کرنے والے اور رنج و غم کا اظہار کر نے والے تمام افراد اور حلقوں کو یکجا ہونے کا پیغام دیتی ہے۔ ہماری یکجہتی اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس وقت دارلخلافہ اسلام آباد میں اسلام کے نام پر تشدد کا پیغام پھیلانے والی دائیں بازو کی رجعتی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے بیس ہزار مردوں کا ٹولہ ریاست کی بالادستی کا مذاق بنا رہا ہے۔ ان کے مطالبات سن کر توں لگتا ہے کہ اسلام کو بہانہ بنا کر یہ ہم سب پر ایک رجعت پسند، پرتشدد، اور جابرانہ نظام مسلط کر نا چا ہتے ہیں۔ ان کے مطالبات یہ ہیں کے ملک میں مذہبی رواداری، سیکولیرازم، آزاد خیالی، اور عوام دوست نظام کی بجائے ایک ایسا نظم مرتب کیا جائے جو ان کی تنگ نظر، کم عقل، اور تشدد پسند نظریات کی مطابق ’’اسلامی شرعی‘‘ نظام ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ برطانوی دور میں اور ملٹری حکمرانوں کے دور میں بنائے گئے ناموس رسالت کے قوانین کو قائم دائم رکھا جا ئے جن قوانین کے نتیجے میں مذہبی اقلیتوں اور عورتوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آسیہ بی بی اور ان کی طرح کے دیگر ملزمین کو پھانسی دی جائے، احمدی مسلمانوں اور سیکولر لوگوں کو ریاست سے بیدخل کیا جائے۔
ہم کئی دہائیوں سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ ریاست اور ملٹری نے داخلہ اور خارجہ پالیسیوں اور حکمران طبقے کے ذاتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے اسلام کے نام پر پر تشدد سیاست کرنے والی قوتوں کوپروان چڑھایا ہے۔ ہم کئی سالوں سے دیکھتے آرہے ہیں کہ ریاست اور ملٹری ہر مسئلہ کو ’’بیرونی سازش‘‘ قرار دے کر را، سی آئی اے، یا موساد کے پلے ڈالنے کی کوشش کرکے خود اپنی ذمہ داری سے بری ہو جاتی ہے، اور ساتھ ہی اپنی توپوں اور بندوقوں کا رخ اپنی ہی عوام کی طرف گھما دیتی ہے۔ ریاستی جبر کی اس فوجی چکی میں پسنے والے غریب اور لاچار عوام ہیں، چاہے وہ پشتون ہوں، بلوچ، سندھی، ہزارہ، پنجابی، سرائیکی، بلتی، احمدی، مسیحی یا کوئی اور گروپ۔ ماضی کے ان تجربات کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیں تو اس بات کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ فوج اور ریاست سانحہ گلشن اقبال کو اپنے مفادات کے فروغ کے لیے ہی استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کرے گی۔ جس کے نتیجے میں جنگ وتشدد کے دور کو مزید تقویت ملے گی۔ فوج اور ریاستی اہلکار یہ اعتراف ہر گز نہیں کریں گے کہ دہشت گرد ی اور اسلام کے نام پر سیاست کی دکان داری کرنے والوں کی پشت پناہی میں ریاست اور فوج پیش پیش رہی ہے۔ہم کیسے فوج اور ریاست کو پاک دامن تصور کر کے ان سے مسئلے کے حل کی امید لگا بیٹھیں۔
اس فوجی اسٹیبلیشمنٹ ،اس کے دہشتگرد پٹھووں اور دائیں بازوں کی سیاسی جماعتوں کے دوغلے پن سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کے بغیر فوجی منصوبہ بندی عوام کو تحفظ دینےکے بجائے حالات کو مزید بگاڑے دے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جنگ و تشدد کے خاتمے کے لیے امن اور برابری کا نیا ایجنڈا ترتیب دیں اور جبرِماضی کے خرابوں پر امن، محبت اور برابری کی نئی عمارت تعمیر کریں۔ عوامی ورکرز پارٹی تمام ترقی پسند، سیکولر، اور جمہوری قوتوں کو ایک ساتھ کھڑا ہو کر امن، برابری، عدل کے علم کے نیچے اکھٹا ہونے کا سندیسہ دیتی ہے۔
فاروق طارق
جنرل سیکٹری
عوامی ورکرز پارٹی